کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 132
’’ اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ عَشْرَ سِنِیْنَ یُضَحِّیْ ‘‘[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور قربانی کرتے رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کے دوران قربانی کرنے کے بارے میں تو ایک صحیح حدیث سنن ترمذی و نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: (( کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم فِيْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْاَضْحٰی، فَاشْتَرَکْنَا فِي الْبَقَرِ سَبْعَۃٌ وَفِي الْبَعِیْرِ عَشْرَۃٌ )) [2] ’’ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی تو ہم ایک گائے میں سات آدمی اور ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔‘‘ ان احادیث کی مجموعی تعداد سے بھی قربانی کی اہمیت و فضیلت واضح ہوجاتی ہے۔
[1] ترمذی (۱۵۰۷) اس حدیث کو امام ترمذی نے تو حسن کہا ہے مگر اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ہے؛ یہ مدلس ہے اور اس نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے سماع کی صراحت بھی نہیں کی؛ نیز وہ بہت زیادہ غلطیاں بھی کرتا ہے جیسا کہ ’’تقریب‘‘ میں ہے، لہٰذا اس کی سند ضعیف ہے۔ [2] ترمذی (۹۰۵، ۱۵۰۱) ’’الحج و الاضاحی‘‘ نسائی (۷/۲۲۲) ابن ماجہ (۳۱۳۱) اسی طرح اس کو ابن خزیمہ (۲۹۰۸) ابن حبان (۱۰۵۰) طبرانی نے ’’ معجم کبیر‘‘ (۱۱/ ۳۳۶) میں، حاکم (۴/ ۲۳۰) اور بیہقی (۵/ ۲۳۵، ۲۳۶) نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے؛ ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے۔