کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 131
’’اون کے ہر ریشے کے بدلے میں نیکی ملتی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں قربانی کے سنت ابراہیمی ہونے کا ثبوت تو خود قرآن کریم میں بھی مذکور ہے۔ چنانچہ سورۃ الصافات میں ارشاد الٰہی ہے: { وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ} [الصفت: ۱۰۷] ’’اور ہم نے بڑی قربانی (اسماعیل کے) فدیے میں دے کر اسے چھڑا لیا۔‘‘ سنن ابن ماجہ اور مسند احمد والی مذکورہ بالا حدیث سنن ترمذی میں بھی مروی ہے، جس کے الفاظ ہیں: (( لِصَاحِبِھَا بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ )) [1] ’’قربانی دینے والے کے لیے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔‘‘  سنن دار قطنی میں ہے: (( مَا اَنْفَقْتَ الْوَرِقَ فِيْ شَیْئٍ اَفْضَلَ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِيْ یَوْمِ عِیْدٍ )) [2] ’’ عید کے دن کسی نیک کام میں چاندی خرچ کرنا بھی اتنا کارثواب نہیں جتنا کہ خون بہانا ہے۔‘‘ قربانی کے معاملے میں اسوہ نبوی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر ہر حالت میں ہر سال قربانی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ترمذی شریف میں حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
[1] دیکھیں: نمبر (۱۸۳) [2] دار قطنی (۴/ ۲۸۲) اسی طرح اس کو ابن حبان نے ’’المجروحین‘‘ (۱/ ۱۰۱) میں طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱/ ۱۷) میں، ابن عدی (۱/ ۲۲۸) اور بیہقی (۹/ ۲۶۱) نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند ابراہیم بن یزید الخوزی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔