کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 130
’’قربانی کے دن بنی آدم کے اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو اتنا زیادہ محبوب عمل کوئی نہیں جتنا قربانی کے جانوروں کا خون بہانا ہے۔ قیامت کے دن (نامۂ اعمال میں درج کرنے کے لیے) وہ سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت لایا جائے گا اور قربانی کے اس عمل کو اللہ تعالیٰ قطرئہ خون کے زمین پر گرنے سے پہلے شرفِ قبولیت سے نواز دیتاہے لہٰذا تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔‘‘  سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں مروی ہے: (( سُنَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ )) یہ (قربانی) تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔‘‘ اسی حدیث میں ہے: (( بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ )) ’’ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔‘‘ اور قربانی کے جانوروں کی اون کے متعلق یوں مذکور ہے: ’’بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ‘‘[1]
[1] ابن ماجہ (۳۱۲۷) مسند احمد (۴/ ۳۶۸) اسی طرح اس کو عبد بن حمید نے ’’المنتخب من المسند‘‘ (۲۵۹) میں، عقیلی (۴/ ۳۰۷) ابن حبان نے ’’المجروحین‘‘ (۳/ ۵۵۔ ۵۶) میں، طبرانی نے ’’کبیر‘‘ (۵/ ۱۹۷) میں اور حاکم (۲/ ۲۸۹) نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند سخت ضعیف ہے، اس میں عائذ اللہ ضعیف ہے اور ابو داود و نفیع بن حارث متروک ہے بلکہ ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے۔