کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 129
اس آیت میں مذکور لفظ ’’نحر‘‘ کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں، جنھیں ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد قربانیوں کا ذبح کرنا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، اردو:۵/ ۷۱۱)
اس سابقہ تفصیل سے قربانی کی فضیلت و اہمیت تو واضح ہوجاتی ہے جب کہ متعدد احادیث میں اس کی مزید فضیلت بھی وارد ہوئی ہے مگر وہ احادیث ضعیف السند ہیں حتی کہ امام ابن العربی رحمہ اللہ نے ترمذی شریف کی شرح ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں لکھا ہے:
’’لَیْسَ فِيْ فَضْلِ الْاُضْحِیَۃِ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ ‘‘ [بحوالہ المرعاۃ: ۳/ ۳۶۳]
قربانی کی فضیلت کے بارے میں کوئی ایک حدیث بھی صحیح نہیں۔ ان غیر صحیح احادیث میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں۔
سنن ترمذی اور ابن ماجہ میں مروی ہے:
(( مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عَمَلاً اَحَبَّ اِلیَ اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ، وَاِنَّہٗ لَیَأْتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا، وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْسًا )) [1]
[1] ترمذی (۱۴۹۳) ابن ماجہ (۳۱۲۶ا) اسی طرح اس کو ابن حبان نے ’’المجروحین‘‘ (۳/ ۱۵۱) میں، حاکم (۴/ ۲۲۱، ۲۲۲) بیہقی (۹/ ۳۶۱) اور بغوی (۱۱۲۴) نے بھی روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف اور منقطع ہے؛ ضعیف اس لیے کہ اس میں ایک راوی ابو المثنی ہے اور یہ ضعیف ہے، اسی لیے امام حاکم کی اس حدیث کی تصحیح کو علامہ ذہبی نے رد کیا ہے؛ اور منقطع اس لیے ہے کہ اس حدیث کو ابو المثنی نے ہشام بن عروہ سے روایت کیا اور اس کا ہشام سے سماع نہیں ہے جیسا کہ امام بیہقی نے ترمذی کے حوالے سےامام بخاری سے نقل کیا ہے۔ اس حدیث کے پہلے جملے کا ایک شاہد بھی طبرانی کبیر‘‘ (۱۱/ ۳۲) میں ابن عباس کی حدیث میں ہے: ’’اس دن خون بہانے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں اور کوئی عمل محبوب نہیں الا یہ کہ ٹوٹی ہوئی قرابت کو جوڑا جائے۔‘‘ مگر یہ حدیث شاہد بننے کے قابل نہیں کیونکہ اس کی سند میں راوی ضعیف ہیں۔