کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 123
سے خطاب فرمارہے تھے ۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میدان عرفات میں حجاج کا روزہ رکھنا خلاف سنت ہے۔ اس کی تائید سنن ابو داود، ابن ماجہ اور مسند احمد کی ایک متکلم فیہ روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ بِعَرَفَاتٍ )) [1]
[1] ابو داود (۲۴۴۰) ’’الصیام‘‘ ابن ماجہ (۱۷۳۲) ’’الصیام‘‘ مسند احمد (۲/ ۴۴۶) اسی طرح اس حدیث کو ابن ابی شیبہ (۳/ ۱۹۵، ۱۹۶، دارالتاج) ابن خزیمہ (۲۱۰۱) عقیلی (ا/ ۲۹۸) حاکم (۱/ ۴۳۴ )بیہقی (۴/ ۲۸۴، ۵/ ۱۱۷) اور خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۹/ ۳۴) میں روایت کیا ہے۔ اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے اور حاکم نے اس کو بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے مگر یہ نہ تو صحیح اور نہ ہی بخاری کی شرط پر ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی مہدی بن حرب البحری ہے اور یہ مجہول ہے، جیساکہ ابن حزم نے ’’المحلی‘‘ (۷/ ۷۷) میں اور حافظ ابن حجرنے ’’تلخیص الحبیر‘‘ (۲/ ۲۱۳) میں کہا ہے۔ امام نووی نے المجموع (۶/ ۳۸۰) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں اس کو مقبول کہا ہے یعنی متابعت کی صورت میں۔ تنبیہ: حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص‘‘ میں کہا ہے کہ اس کی سند میں مہدی البحری مجہول ہے اور عقیلی نے ’’ضعفاء‘‘ میں اس حدیث کو اسی کے طریق سے روایت کیا ہے اور کہا ہے ’’لا یتابع علیہ‘‘ (وہ اس حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہے) مگر یہ حافظ صاحب کاوہم ہے کیونکہ عقیلی نے یہ بات مہدی سے اس حدیث کے راوی حوشب بن عقیل کے بارے میں کہی ہے اور اسی کے ترجمہ ہی میں انھوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر کی تقلید میں یہی بات صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ میں (۲/۶۸۱) اور شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ (۴/ ۲۳۹) میں کہی ہے حالانکہ ضعفاء عقیلی میں تو مہدی بن حرب کا ترجمہ ہی نہیں ہے۔ ’’تلخیص‘‘ میں تو حافظ صاحب نے یوں کہا ہے مگر تہذیب التہذیب (۳/ ۵۸) میں انھوں نے عقیلی کا مذکورہ قول حو شب بن عقیل کے ترجمہ ہی میں نقل کیاہے۔ عرفۃ کے دن عرفہ میں روزہ کی ممانعت کے لیے حدیث عقبۃ بن عامر کفایت کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’یوم عرفۃ و یوم النحر، أیام تشریق عیدنا أھل الإسلام وھي أیام أکل وشرب‘‘ عرفہ قربانی اور تشریق کے دن ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ اس حدیث کو ابو داوود (۲۴۱۹) ’’الصیام‘‘ ترمذی (۷۷۳) ’’الصیام‘‘ نسائی (۵/ ۲۵۲) ’’الحج‘‘ اور ابن خزیمہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے، اس کو ترمذی، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے۔ امام نسائی اس حدیث کو درج ذیل باب کے تحت لائے ہیں: ’’النھي عن صوم یوم عرفۃ‘‘ واضح رہے کہ عرفہ کے دن روزہ کی ممانعت کو حجاج کرام کے ساتھ خاص سمجھا جائے کیونکہ دوسری صحیح حدیث میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی بہت فضیلت آئی ہے جیسا کہ حدیث (۱۷۷) میں گزرا ہے اور یہ حدیث غیر حجاج کے لیے ہوگی۔