کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 121
’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال ہتھیلی پر رکھ کر میدان جہاد میں نکلا اور کوئی چیز واپس نہ لایا (یعنی جان و مال سب اللہ کی راہ میں قربان کردیا اور شہید ہوگیا)۔‘‘ اندازہ فرمائیں کہ عملی شہادت اور مالی قربانی دینے کے سوا دوسرا کوئی عمل ان دس دنوں میں کیے گئے نیک عمل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سورہ فجر کی ان ابتدائی آیات کی تفسیر مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یوں مرفوعاً مروی ہے: (( اِنَّ الْعَشْرَ: عَشْرُ الْاَضْحٰی وَ الْوِتْرَ: یَوْمُ عَرْفَۃَ، وَالشَّفْعَ: یَوْمُ النَّحْرِ لِکَوْنِہِ الْعَاشِرَ )) [1] ’’دس سے مراد ذوالحج کے پہلے دس دنوں کی راتیں ہیں اور طاق سے مراد یوم عرفہ ہے اور جفت سے مراد نحر و قربانی کا دن ہے کیونکہ وہ دسواں دن ہوتا ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر میں جفت اور طاق کی تفسیر میں امام صاحب موصوف نے مذکورہ قول کے علاوہ بھی کئی اقوال نقل کیے ہیں لیکن علامہ محمد نسیب الرفاعی نے اسی
[1] اس حدیث کو احمد (۳/ ۳۲۷) نسائی نے ’’السنن الکبری‘‘ میں جیساکہ ’’تحفۃ الأشراف‘‘ (۲/ ۲۹۶/ ۲۷۰۴) میں ہے، حاکم (۴/ ۲۲۰) اور ابن جریر نے ’’تفسیر‘‘ (۱۵/ ۱۶۹) میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے کہاہے کہ اس کی سند کے راویوں میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے مگر اس متن کے مرفوع ہونے میں میرے نزدیک نکارت پائی جاتی ہے (تفسیر ابن کثیر: ۴/ ۵۴۰) {ولیال عشر} کی تفسیر ’’عشرہ ذوالحجہ‘‘ سے ابن عباس، ابن الزبیر، مجاہد اور کئی سلف اور خلف سے بھی مروی ہے اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر نے صحیح کہا ہے۔