کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 108
امام شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی ایاس بن ابو رملہ مجہول ہے لیکن امام علی بن مدینی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔[1] اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی کہ عید و جمعہ کا اکٹھا ہوجانا خطرناک اور باعث نحوست ہے بلکہ سنن ابو داود و ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کی سند میں ایک راوی بقیہ بن ولید ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امام دار قطنی نے اس حدیث کو مرسل کی حیثیت سے صحیح قرار دیا ہے اور امام بیہقی نے اسی کو موصولاً روایت کیا ہے اور جمعہ کی رخصت کو عوالی مدینہ کے لوگوںکے ساتھ خاص بیان کیا ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔[2] اس حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: (( قَدِ اجْتَمَعَ فِيْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا عِیْدَانِ ۔۔۔ الخ )) [3] ’’آج تمھارے لیے دو عیدیں (دو خوشیاں) جمع ہوگئی ہیں۔‘‘ اس حدیث کی رو سے تو جمعہ و عید کے اکٹھے ہوجانے کو دو خوشیوں کا اجتماع قرار دیا گیا ہے، اور یہ لوگ ایسے میں پریشان ہو جائیں کہ نہ معلوم کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ یہ کہاں کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؟ ایسے ہی صحیح بخاری میں بھی مذکور ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں عید و جمعہ اکٹھے آگئے تو انھوں نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: (( یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ ہٰذَا یَوْمٌ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِیْہِ عِیْدَانِ )) [4]
[1] نیل الأوطار (۲/ ۴/ ۲۸۲) [2] حوالہ سابقہ [3] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۰۷۳) صحیح ابن حبان (۸/ ۳۶۴) [4] بخاری مع الفتح (۱۰/ ۲۴، طبع دار الافتاء)