کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 92
وبدکردار ساتھی ہوتے ہیں۔بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ آدمی کے مصاحبوں کو دیکھ کر اس آدمی پر اچھا یا برا ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔شاعر کہتا ہے: عَنِ الْمَرْئِ لَا تَسْاَلْ وَسَلْ عَنْ قَرِیْنِہٖ فَاِنَّ الْقَرِیْنَ بِالْمُقَارِنِ یَقْتَدِیْ یعنی آدمی کے بارے میں نہ پوچھوبلکہ اس کے دوست کے بارے میں پوچھو کیونکہ آدمی اپنے دوست ومصاحب ہی کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ اس سماجی ضابطے کی روشنی میں بھی جب ہم غور کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیرنہیں لگتی کی صحابہ کرام کو ہدف ملامت بنانا اور ان کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کرنا ایک طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مطعون کرنا ہے، کیوں کہ آدمی جس طبیعت کا ہوتا ہے اسی طبیعت کے لوگوں سے قربت اور دوستی رکھتا ہے۔ ٭ تیسری بات یہ کہ اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ سارے صحابہ کرام عادل ہیں ،حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ ’’اَجْمَعَ اَھْلُ الْحَقِّ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی اَنَّ الصَّحَابَۃَ کُلُّہُمْْ عُدُوْلٌ ‘‘یہ اجماع بھی صحابہ کرام کے مقام مرتبہ کو خوب واضح کرتا ہے اور ان کے بارے میں کوئی دوسرا تصور قائم کرنے سے روکتا ہے۔ ٭ چوتھی بات یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ:’’اَلَا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ ‘‘ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ غیر موجود لوگوں تک ہماری باتیں پہنچائیں۔توکیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنی باتیں پہچانے کا حکم دیاتھا جو قابل اعتماد ،ثقہ اور صادق نہیں تھے؟ ٭ پانچویں بات یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے تعارف میں کہا ہے کہ ’’قَوْمٌ اِخْتَارَ ہُمُ اللّٰہُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ۔۔۔‘‘ وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے۔یہ نقطہ واقعی غور کرنے کا ہے کہ ان برگزیدہ ہستیوں کو اللہ کے نبی کا مصاحب بنانا یہ اللہ رب العزت کا انتخاب ہی ہے جس کے مدلول کو سمجھنا ضروری ہے۔