کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 74
میں بولا ’’ میری رعایا میں سے ایک معمولی غلام ایسی جرأت کر رہا ہے کہ میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھ رہا ہے ، اس نے یمن میں موجود اپنے گورنر ’ باذان‘‘ کو خط لکھا کہ حجاز کے اس مدعی نبوت کو گرفتار کرنے اور میرے دربار میں حاضر کرنے کے لیے فورا دو پہلوانوں کو بھیجا جائے ، باذان نے تعمیل حکم کے طور پر بابویہ اور خرخسرہ نامی دو شخصوں کو مدینہ منورہ روانہ کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط دیا کہ آپ فورا ہمارے ان نمائندوں کے ساتھ کسری کے دربار میں حاضر ہو جائیں ، یہ دونوں مدینہ پہنچے ،نبی کے پاس حاضر ہو کر مدعابیان کیا اور دھمکی بھی دی کہ اگر حکم کی تعمیل نہ کریں گے توآپ کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے کہاکہ کل مجھ سے ملنا۔ ادھر قاصد رسول حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کسری کے دربار سے واپس آکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری تفصیل سنا چکے تھے اور آپ کو مکتوب مبارک چاک کرنے کی خبر دے دی تھی ، اللہ کے رسول نے اسی وقت فرمادیا تھا کہ ’’ اللہ تعالی اس کی سلطنت کے پرزے اڑا دے گا‘‘۔ اس سے پہلے ایک اور فرمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی کہ: ’’ جب کسری ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد اب کسری نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد قیصر نہ ہوگا(یعنی ان دونوں سلطنتوں کے اقتدار کا زوال قریب ہے)قسم ہے اس ذات اقدس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ ان دونوں سلطنتوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کروگے‘‘۔(بخاری،مسلم) بہر حال جب دوسرے دن باذان کے نمائندے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو اس وقت تک نبی کے پاس آسمان سے یہ خبر آچکی تھی کہ فلاں دن فلاں تاریخ کو خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر ڈالا ہے اور اس کے خاندان میں بغاوت ہو چکی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں نمائندوں کو یہ خبر دی ، مگر وہ دونوں یقین نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ سے کہہ رہے تھے کہ آپ سوچ سمجھ کر بول رہے ہیں ؟ کیا آپ کی یہ باتیں ہم شاہ کے پاس لکھ کر