کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 53
اس نے کہا قسم ہے اللہ کی، سچ بات تو یہ ہے کہ محمد کے کلام یعنی قرآن میں کھجور کی سی مٹھاس ہے، اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھلدار، تم جو بات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے، البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہوکہ وہ جادوگر ہے۔۔۔۔ (سیرت ابن ہشام:۱؍۲۸۸-۲۸۹) عورتیں اور بچے بھی کھنچ گئے: بخاری شریف کی ایک طویل حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ مکہ میں جب مسلمانوں کو زیادہ تنگ کیا جانے لگا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حبشہ ہجرت کی غرض سے نکل پڑے، ابھی برک غماد نامی جگہ تک پہنچے تھے کہ ابن دغنہ نامی ایک مشہور سردار نے آپ کو دیکھ کرپوچھا کہ ابوبکر کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے کہا کہ میری قوم نے مجھے وطن سے نکال دیا ہے اب میں زمین کی سیر کروں گا اور اپنے مولیٰ کی عبادت کروں گا، ابن دغنہ نے کہا ابوبکر!آپ جیسا شخص نہ نکل سکتا ہے نہ نکالا جاسکتا ہے،پھر اس کے بعد ان کی خوبیاں گنائیں اور انھیں واپس مکہ لے کرآیا اور قریش کو سرزنش کی اور ان کے سامنے بھی حضرت ابوبکر کے محاسن بیان کیے اور کہا کہ اس جیسا شخص نہ خود سے جاسکتا ہے نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ قریش نے ابن دغنہ سے کہا کہ ٹھیک ہے ان سے کہو کہ اپنے گھر ہی میں اپنے رب کی عبادت کیا کریں، جتنا چاہیں نماز پڑھیں، تلاوت کریں، لیکن علی الاعلان یہ سب کرکے ہمیں ایذا نہ پہنچائیں، ہمیں ڈر ہے کہ ان کی قراء ت وغیرہ سے ہماری عورتیں اور بچے نہ بہک جائیں، چنانچہ ابن دغنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ درخواست کی اور آپ نے اسے قبول کر لیا اور گھر کے اندر ہی یہ سب کام کرنے لگے، اب آپ نہ کھلم کھلا نماز پڑھتے نہ گھر کے باہر کہیں قرآن پڑھتے، اس کے بعد انہوں نے اپنے گھر کے اندر ہی ایک مسجد بنا لی اور اسی میں نماز پڑھنے لگے اور تلاوت کرنے لگے، ان کی قراء ت سن کر مشرکین کی عورتوں اور بچوں کی وہاں بھیڑ اکٹھا ہونے لگی، حضرت ابوبکر جب قرآن کی تلاوت کرتے تو بے ساختہ آپ کی آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑتے اور رقت طاری ہوجاتی، قریش نے جب یہ منظر دیکھا