کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 52
حکومت ہوگی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی، اس تدبیر میں تمہاری بھلائی ہے، قریش کہنے لگے اے ابوالولید!خدا کی قسم تم پر اس نے جادو کردیا ہے، اس نے کہا میری جو رائے تھی میں نے کہہ دی اب جو تمہارا جی چاہے کرو۔ (سیرت ابن ہشام:۱؍۳۱۳-۳۱۴) حقیقت کچھ اور ہے: قریش میں ایک شخص ولید بن مغیرہ نہایت عمر رسیدہ تھا اور بہت سارے لوگ اس کے پاس آتے تھے، جب حج کے ایام قریب آئے تو چند لوگ اس کے پاس جمع ہوئے، اس نے ان سے کہا کہ اے قریش اب حج کے دن آرہے ہیں، ہر چہار جانب سے عرب لوگ تمہارے یہاں آئیں گے اور تمہارے صاحب یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ سن چکے ہیں، پس اب تم رائے دو کہ کیا بندو بست کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ آپ بزرگ ہیں، جو آپ کی رائے سو ہماری رائے، آپ اپنی رائے سے ہمیں آگاہ کریں، اس پر ہم بھی عمل کریں گے، اس نے کہا کہ نہیں تم ہی اپنی رائے ظاہر کرو ،اور ایک ہی بات کہنا ایسا نہ ہوکہ تم میں سے کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ کہے، پس اپنے اختلافِ بیان کے سبب سے تم جھوٹے ٹھہرائے جاؤگے، اس واسطے لازم ہے کہ ایک ہی قول پر قائم ہوجاؤ، سب نے کہا ہم حج کے دنوں میں لوگوں سے یہ کہتے پھریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہن ہیں، ولید نے کہا کاہن کہنا ٹھیک نہیں، کیوں کہ کاہن کی گنگناہٹ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)میں نہیں ہے، اور نہ اس کے کلام کاہنوں کے سے مسجع ہیں، تم اس بات میں جھوٹے ہوجاؤگے، سب نے کہا اچھا ہم مجنوں کہیں گے، ولید نے کہا وہ مجنوں بھی نہیں ہیں اور مجنوں(دیوانہ)تو ہم نے دیکھا ہے اس کی علامات بھی اس میں نہیں ہیں، سب نے کہا اچھا ہم شاعر کہیں گے، اس نے کہا شعر اور اس کی کل اقسام سے بھی ہم واقف ہیں، رجز ، ہزج ، قریض، مقبوض اور مبسوط سب کو ہم جانتے ہیں، اس کاکلام شعر بھی نہیں ہے۔سب نے کہا اچھا ہم ساحر(جادوگر)کہیں گے، اس نے کہا یہ ساحر بھی نہیں ہیں، ہم نے ساحروں کو بخوبی دیکھا ہے اور ان کے جنتر منتر سے واقف ہیں۔آخر وہ لوگ عاجز ہوگئے اور انہوں نے کہا اے ابو عبد شمس(ولید کی کنیت ہے)پھر تم ہم کو بتلاؤ کہ ہم کیا کہیں؟