کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 51
کافر بتلا یا اور ان کے دین میں عیب نکالے، پس میں چند امور تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں، ان کو تم غور سے سنو، شاید کو ئی بات ان میں سے تمہیں پسند آجائے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابو الولید تم کہو میں سن رہاہوں۔اس نے کہا:’’یہ جو دعویٰ نبوت کا تم نے کیا ہے اس سے تمہارا مطلب یہ ہے کہ تم ساری قوم میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ، یا یہ مطلب ہے کہ سب کے سردار بنو کہ تمہاری اجازت کے بغیر کوئی کام نہ ہو یا تمہارا ارادہ حکومت کرنے کا ہے، تو یہ سب ہم لوگ تمہارے لیے کر سکتے ہیں اور اگر یہ بات ہے کہ کوئی جن یا آسیب تمہارے سر پر آتا ہے اور تم اس کو دفع نہیں کرسکتے تو ہم حکیم کو بلا کر اپنے خرچ سے تمہارا علاج کرادیں گے تاکہ تم اچھے ہو جاؤ۔جب عتبہ اپنی بات کہہ چکا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ اے ابو الولید کہہ چکے؟ اس نے کہا کہ ہاں کہہ چکا۔آپ نے فرمایا:اب میری بات سنو، اس نے کہا فرمائیے، آپ نے تلاوت شروع کی: ﴿حم۔تَنزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْم۔کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ۔بَشِیْراً وَنَذِیْراً فَأَعْرَضَ أَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُونَ﴾(سورہ فصلت:۱-۳)پڑھتے پڑھتے جب آپ سجدہ کے مقام پر پہنچے توسجدہ کیا اور عتبہ پشت کے پیچھے زمین پر ہاتھ ٹکائے خاموشی کے ساتھ بیٹھا سن رہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے فارغ ہو کر فرمایا:اے ابو الولید!تم نے اپنی بات کا جواب سن لیا؟ پس اب تم جانو تمہارا کام جانے۔عتبہ وہاں سے اٹھ کر اپنے ساتھیوں میں آیا، اس کی صورت دیکھ کر مجلس کے لوگ آپس میں کہنے لگے یہ اس منہ کے ساتھ نہیں آیا ہے جس منہ کے ساتھ گیا تھا۔جب یہ پہنچا تو انہوں نے پوچھا ابو الولید کیا خبر لائے ہو؟ اس نے کہا میں نے ایسی بات سنی ہے کہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی بات کبھی نہیں سنی، نہ تو وہ شعر ہے نہ جادو ہے نہ کہانت ہے، اے قریش میری بات مانو تو اس شخص کو اسی حالت پر چھوڑ دو، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ جو بات میں نے اس شخص سے سنی ہے یہ تمام عالم میں پھیلے گی، پس اگر عرب اس کے مخالف ہوگئے تب تم کو اس کی مخالفت کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی، اور اگر یہ عرب پر غالب ہوا تو اس کی حکومت تمہاری