کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 50
آنے سے نہ جانے کیا سمجھیں گے، مگر پھر جب دوسری رات ہوئی پھر یہ لوگ سننے کو آگئے اور طلوع فجر کے بعد واپسی میں راستے میں ایک دوسرے سے ملاقات ہوگئی اور وہی گفتگو ہوئی جو پہلی رات ہوئی تھی، پھر تیسری رات یہ تینوں آئے اور صبح کو راستے میں پھر ان کی باہم ملاقات ہوئی، اب انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ اب ہم ہرگز نہ آئیں گے، صبح ہونے کے بعد اخنس بن شریق اپنی چھڑی ہاتھ میں لے کر ابو سفیان کے گھر پر آیا اور کہا کہ ابو حنظلہ!(ابو سفیان کی ایک کنیت ہے)یہ جو تم نے محمد سے سنا اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ ابو سفیان نے کہا، اے ابو ثعلبہ(اخنس کی کنیت ہے)میں نے چند باتیں ایسی سنیں جن کو سمجھا اور ان کے مطلب سے آگاہ ہوا، اخنس نے کہا کہ واقعی میری بھی یہی حالت ہے، پھر اخنس ابوسفیان کے پاس سے ہوکر ابوجہل کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابو الحکم(ابو جہل کی کنیت ہے)یہ جو تم نے محمد سے سنا اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ابو جہل نے کہا میں نے کیا سنا، بات یہ ہے کہ بنی عبد مناف ہمیشہ ہم سے شرف اور عزت کی بابت جھگڑتے ہیں، وہ حاجیوں کو کھانا کھلاتے ہیں ہم بھی کھلاتے ہیں، وہ نادار مسافر کو خرچ دیتے ہیں ہم بھی دیتے ہیں، وہ مسکین کی خدمت کرتے ہیں ہم بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ ہر بات میں ہم اور وہ برابر ہیں، کسی بات میں وہ ہم پر فوقیت نہیں رکھتے، اب وہ کہنے لگے کہ ہم میں نبی ہے اور اس کے پاس آسمانی وحی آتی ہے۔تو پھر ہم اس بات کو کیسے پا سکتے ہیں اور اس میں ان کی کیوں کر برابری کر سکتے ہیں، خدا کی قسم ہم تو کبھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے، اخنس ابو جہل سے یہ جواب سن کر چلا گیا۔ (سیرت ابن ہشام:۱؍۳۳۷-۳۳۸) قریش کے ایک نمائندے کا تاثر: عتبہ بن ربیعہ ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کرتا ہے کہ اے میرے بھتیجے ہمارا اور تمہارا جو رشتہ ہے اسے تم جانتے ہو اور تم یہ بھی دیکھتے ہو کہ تم اپنی قوم کے پاس ایسی چیز لائے ہو جس سے تم نے اس کو متفرق کر دیا، تم نے ان کے باپ دادا کو جاہل اور