کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 43
قیمتی اور ناپید ہوجائے گا۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ابھی چند ماہ قبل ایک امریکی پادری نے اعلان کیا کہ ۱۱؍ستمبر کی برسی کے موقع پر اس سال بڑے پیمانے پر قرآن نذر آتش کیا جائے گا۔سراپا شروفسادپر مبنی اس اعلان سے مسلمانوں بلکہ تمام امن پسند طبقوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونا فطری بات تھی، مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ نہ صرف وہ پادری اپنے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا بلکہ اس کے اشتعال انگیز اعلان کی وجہ سے یورپ کے انصاف پسند حلقوں میں ایک بار پھر اس قرآن کے بارے میں جانکاری کی خواہش ہوئی اور بالفعل بہتوں نے اسی موقع پر قرآن کا مطالعہ کیا اور ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد مشرف بہ اسلام ہوگئی۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء؁ کو رونما ہونے والا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کتنی آزمائشیں اور مشکلات لے کر آیا تھا اور اس حادثہ کو بہانہ بنا کر کس طرح صلیبیوں اور صہیونیوں نے اسلام اور مسلمانوں پر چوطرفہ یلغار کررکھی تھی، مگر اس واقعہ کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ پورے مغرب میں اسلام اور قرآن کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کا رجحان پیدا ہوا، بتایا جاتا ہے کہ اس حادثہ کے بعد مغرب کے متعدد شہروں میں کتابوں کی مارکیٹ کا یہ حال رہا کہ کئی ہفتوں تک سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب یہی کتاب الٰہی تھی اور ظاہر بات ہے حق شناسی کے جذبے سے اور غیر جانبدار ہوکر اللہ کے کلام پر غور کیا جائے گا تو دل بلا اختیار:’’لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘‘ پکار اٹھے گا۔’’اس سال صرف ایک امریکی شہر’’ اوکلاھاما‘‘ میں چار سو پچاس لوگوں نے اسلام قبول کیا، امریکہ میں اس سال جتنے قرآن مجید فروخت ہوئے پچھلے سات سال میں نہیں ہوئے تھے۔اس واقعہ نے وہاں کے مسلمانوں کو اپنی دینی حالت کا جائزہ لینے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ امریکی خفیہ ایجنسی ایف۔بی۔آئی کو وہائٹ ہاؤس میں صدر امریکہ کو یہ رپورٹ دینی پڑی کی گیارہ ستمبر کے حادثے سے پہلے جو مسلمان امریکی ویورپی ممالک میں آوارگی اور تعیش کے دلدادہ تھے