کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 39
وہدایات ان کے سامنے حکیمانہ انداز میں پیش کی جائیں اور موضوع سے متعلق عام طور پر کیے جانے والے اعتراضات کو صراحۃً ذکر کیے بغیر ان کا جواب دینے کی کوشش کی جائے۔ ان قلمی ولسانی کوششوں میں ان انصاف پسند غیر مسلم دانشوروں کے بیانات واعترافات کا تذکرہ بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا جنہوں نے غیر جانب دار ہو کر قرآن کا مطالعہ کیا اور اس کی تعلیمات کی پاکیزگی سے متاثر ہوئے اور اپنی زبان وقلم سے حقائق کا اظہار بھی کیا۔کیوں کہ ’’شَھِدَ شَاھِدٌ مِنْ أھْلِہَا‘‘ اور ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الأعْدَائُ‘‘ جیسی مثالوں کی اہمیت مسلم ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ اسلام اور قرآن کے تعلق سے تمام غیرمسلم یکساں تصور نہیں رکھتے۔چنانچہ کچھ تو ایسے ہوں گے جو مثبت اور منفی ہر طرح کے تاثر سے خالی الذہن ہوں گے، کچھ مثبت تاثر رکھتے ہوں گے، کچھ منفی تاثر رکھتے ہوں گے، کچھ کم رکھتے ہوں گے، کچھ زیادہ۔الغرض سب پر ایک حکم نہیں لگایا جاسکتا،﴿لَیْسُوْا سَوَائً﴾(آل عمران:۱۱۳)کے اعلان پر ہمیں غور کرنا چاہیے اور اسی طرح ابوطالب اورابولہب کے درمیان جو فرق ہے اسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ایک اور چیز جو تعارفی اور دفاعی دونوں مواقع کے لیے مفید ہے وہ ہے بہت سارے سائنسی اصول و نظریات سے قرآنی تعلیمات کا توافق وتطابق۔کیوں کہ آئے دن سائنس داں مختلف چیزوں کے بارے میں بزعم خویش اپنی تحقیق کے نتائج کا انکشاف کرتے ہیں ، پھر انہیں بتایا جاتا ہے کہ اس حقیقت کا اعلان یا انکشاف تو قرآن نے آج سے چودہ سو برس پہلے کردیا ہے تو ان کی حیرت واستعجاب کی انتہا نہیں رہتی، اور ان میں جو سلیم الطبع ہوتے ہیں انہیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا، اور پھر وہ’’لا إلہ إلا اللّٰه، محمد رسول اللّٰه‘‘ کے اعتراف واقرار میں دیر نہیں کرتے۔اس طرح کے افراد اور واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جس میں دوسروں کے لیے عبرت وہدایت کا سامان موجود ہے۔قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا