کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 37
ناعاقبت اندیشی کا دخل ہوتا ہے اور اکثر وہ مخالفین جو تاک میں بیٹھے رہتے ہیں اوراس طرح کی بھیڑ بھاڑ میں وہ کام کر جاتے ہیں جس سے مسلمانوں کی بدنامی ہو،ان کی شبیہ خراب ہو اور انہیں ایک جنونی اور فرقہ پرست قوم کی حیثیت سے میڈیا میں پیش کیا جائے۔ایسے مواقع پر متعدد قیمتی جانیں بھی مسلمانوں کو قربان کرنی پڑتی ہیں اور بہت ساری تکلیفیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔اس طرح مسلمان دونوں طرف سے گھاٹے ہی میں رہتا ہے، قرآن کی توہین وبے حرمتی کی گئی تو بھی اسلام اور اہل اسلام کا خسارہ ہوا، پھر اس پر احتجاج کرنے نکلے تو بھی اسلام اور اہل اسلام ہی خسارے میں پڑے۔ یہ امر واقع ہے، اس کے اظہار کا مقصد کسی پر اعتراض کرنا یا کسی کو روکنا ہرگز نہیں،بلکہ اس طرح کے کاموں کے نتائج اور سود وزیاں کو سمجھنے کی فقط دعوت دینا مقصود ہے۔ ٭ جہاں تک اخباری بیانات، مراسلات اور مضامین کا معاملہ ہے اور اسی طرح اپنے جلسوں اور خطبوں میں اسلام اور قرآن پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دینے کا معاملہ ہے تو ان سب کاموں سے خود مسلمان حاضرین وقارئین تو سن کر اور پڑھ کر خوش ہوسکتے ہیں اور بولنے والے اور لکھنے والے کو داد دے سکتے ہیں مگر اس طرح نہ تو اعتراض کرنے والوں تک ہمارے جوابات پہنچیں گے اور نہ ہی ان لاکھوں کروڑوں لوگوں تک، جن کے ذہن ودماغ ذرائع ابلاغ کے توسط سے گمراہ کن اعتراضات سے مسموم کیے گئے تھے۔اب نتیجہ یہ ہوا بقول بعض اکابر کہ ہم خود ہی لکھتے بولتے، خود ہی پڑھتے سنتے اور خود ہی خوش ہوتے ہیں۔ ٭ اس قسم کی جوابی یا دفاعی کوششوں کا ایک منفی پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہماری ساری تقریر وتحریر کی زبان اردو یا وہ علاقائی زبانیں ہوتی ہیں جو بڑی حد تک مسلمانوں کی زبانیں بن چکی ہیں یا بنادی گئی ہیں۔اس کی وجہ سے بھی ہماری آواز جن کانوں تک پہنچنی چاہیے ان تک نہیں پہنچ پاتی اور معاملہ جہاں سے شروع ہوتا ہے وہیں آکر ختم ہوجاتا ہے۔ پس چہ باید کرد: