کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 36
تمام حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ یہ جزائری لڑکیاں اپنے اسلامی جزائری لباس میں پروگرام میں پہنچیں۔فرانسیسی اخباروں نے خوب شور مچایا اور سوال اٹھایا کہ(۱۲۸)سال تک فرانس نے الجزائر میں کیا کیا ؟ اس وقت فرانسیسی نو آبادیاتی وزیر ’’ لاکوسٹ ‘‘ جواب دیتا ہے کہ اگر قرآن فرانس سے زیادہ قوی ہے تو میں کیا کروں؟(قادۃ الغرب یقولون ، ص:۴۷-۴۸) ہماری ذمہ داری بہرحال ہم مسلمانوں کی بحیثیت مسلمان یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام اور قرآن پر ہونے والے ہر حملے کے اغراض ومقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں اور منصوبہ بند طریقے سے ان حملوں کو ناکام بنانے کی کوشش کریں ، ایسا نہ ہو کہ ہم دشمنان اسلام کی سازشوں کا شکار ہو جائیں اور ان کے بچھائے ہوئے جال میں ہم خود اپنے آپ کو پھنسا لیں۔ ادھر ایک عرصے سے دیکھا یہ جاتا ہے کہ قرآن کریم پر ہونے والے اعتراضات اور اس کے ساتھ کی جانے والی گستاخی اوربے حرمتی کے وقت مسلمانوں کی اکثریت مظاہرہ کر کے، جلوس نکال کر کے، میٹنگیں کر کے ، اخباری بیانات دے کر اور جوشیلے نعرے لگا کر اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتی ہے، دینی جلسوں میں اور جمعہ کے خطبوں میں قرآن کی حقانیت بیان کی جاتی ہے اور مخالفین قرآن کا ’’دندان شکن‘‘ جواب دیا جاتا ہے ، اردو اخبارات و رسائل ومجلات میں مراسلات اور مضامین میں جذباتی تحریریں شائع کی جاتی ہیں۔ دفاع عن القرآن کی یہ شکلیں اور یہ طریقے اپنے آپ میں کتنے ہی تشفی بخش لگتے ہوں مگر درحقیقت ان مسائل کا پائدار حل اور مؤثر جواب نہیں، مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو کئی باتیں ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں: ٭ احتجاجی مظاہروں اور جلوسوں کا جہاں تک معاملہ ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ منتظمین کی تمام تر کوششوں اور تنبیہوں کے باوجود بسا اوقات یہ پر امن مظاہرے افراتفری، بد امنی اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں، کبھی تو اس میں اپنے ہی جوشیلے نوجوانوں اور لڑکوں کی