کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 35
اعدائے اسلام کی اس قرآن مخالف مہم کے پیچھے کئی اسباب ہیں، وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ مسلمانوں کی سعادت اور دین ودنیا کی کامیابی کا راز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی ہی میں پنہاں ہے، اسی طرح وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قرآن وحدیث کی انسانیت نواز تعلیمات اور ان کے محاسن سے متأثر ہوکر غیر مسلموں کا ایک بڑا طبقہ حلقہ بگوش اسلام ہورہا ہے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے حاقدین وحاسدین مذہب اسلام کو عموما اور قرآن کریم کو خصوصاً اپنے طعن وتشنیع اور تنقید وتمسخر کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور مختلف وسائل واسالیب سے اپنی خباثت ذہنی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم ’’گلیڈسٹون‘‘ [GLADSTONE]نے ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’’جب تک یہ قرآن عربوں(مسلمانوں)کے ہاتھ میں رہے گا تم ان پر کنٹرول نہیں حاصل کر سکتے‘‘ اسی طرح جرمن مستشرق ’’ بیکر‘‘ نے کہا تھا:’’ جب تک یہ قرآن رہے گا مشرق تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں رہے گا ‘‘(مجلۃ مجمع اللغۃ العربیۃ بدمشق:مجلد ۳۴، جزء ۴، شوال ۱۴۳۰ ھ ص:۹۳۶) الجزائر پر فرانسیسی استعمار کے سو سال مکمل ہونے پر ایک فرانسیسی حاکم نے کہا تھا:’’ہمیں جزائر والوں پر اس وقت تک غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا جب تک وہ قرآن پڑھتے اور عربی بولتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے گھر وں سے قرآن کواور ان کی زبانوں سے عربی کو ختم کر دیں۔‘‘(قادۃ الغرب یقولون ، از جلال العالم، ص:۲۸-۲۹) اس تجویز کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا جس کا نتیجہ بڑا ہی مضحکہ خیز اور عبرت آموز ہے ، فرانس نے دس جزائری مسلم لڑکیوں کا انتخاب کیا اور انہیں فرانس کے اسکولوں میں داخل کرایا ، انہیں فرانسیسی لباس پہنایا ، دس سال تک انہیں پڑھانے لکھانے کے بعد بڑے پیمانے پر جلسہ فراغت منعقد کیا گیا جس میں وزراء، مفکرین اور صحافیوں کو مدعو کیا گیا ، لیکن اس وقت