کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 32
دفاع عن القرآن اہمیت اور طریق کار قرآن کریم اللہ رب العزت کی آخری کتاب ہے جو خاتم الانبیاء جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی۔یہ کتاب ’’ھدی للناس‘‘ بھی ہے اور ’’ھدی للمتقین‘‘ بھی۔اس کتاب کو ماننے والوں اور اس پر ایمان رکھنے والوں پر اس کتاب کے تعلق سے مختلف حقوق اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن میں سے ایک ذمہ داری اس کی طرف سے دفاع کی بھی ہے، یعنی اس قرآن پر اور اس کی تعلیمات پر ہونے والے حملوں اور اعتراضات کا جواب دینا، حق کو باطل سے ممتاز کرنا، اور حقائق کا اثبات کرکے شکوک وشبہات کا خاتمہ کرنا اس امت کے فرائض میں داخل ہے۔ قرآن پر شکوک وشبہات اور اعتراضات کا سلسلہ نزول قرآن کے وقت ہی سے شروع ہوچکا تھا، اور قرآن نے بروقت ان کا جواب دیا اور حق بات کی وضاحت کی، اس وقت معترضین نے کبھی قرآن کی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں سوال اٹھایا اور اسے جادو، شعر، اساطیر الاولین، وغیرہ کہا، کبھی اس کے مصدر کے بارے میں﴿إِنَّمَا یُعَلِّمُہُ بَشَر﴾اور﴿إِنْ ہَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَر﴾کہہ کر اسے رد کرنے کی کوشش کی، کبھی منزل علیہ کے بارے میں سوال اٹھایا کہ﴿لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلَی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ﴾تو کبھی اس کے وقفے وقفے سے نازل ہونے پر اعتراض کیا کہ﴿لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً﴾اسی طرح اس کی تعلیمات اور ہدایات سے لوگوں کو روکنے کے لیے﴿لَا تَسْمَعُوا لِہَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیْہ﴾کی ہدایت جاری کی۔قرآ ن میں کہیں تو ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا اور کہیں معترضین کی کج فہمی پر ان کو تنبیہ کی گئی۔