کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 307
جاتے رہتے ہیں ، مثلا یہ کہ یہ مدارس عسکری تربیت کے اڈے ہیں، خفیہ تنظیموں اور ملک دشمن ایجنٹوں کی پناہ گاہ ہیں اور دہشت گردی کے مراکز ہیں وغیرہ وغیرہ۔اس سلسلے میں ہم درج ذیل جزئیات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی دعوت دیں گے۔
(۱) یہ مدارس انسانی آبادی کے بیچ عام شاہراہوں اور گذر گاہوں پر واقع ہیں، ایسا نہیں کہ انسانوں کی دسترس سے دور کسی ویرانے میں یا خفیہ تہ خانوں میں یہ مدارس چلائے جاتے ہوں ، ان مدارس کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے ہیں ، جو چاہے ان میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ فی الواقع یہاں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو بعض لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یا تعلیم ہوتی ہے۔
(۲) اس دور میں جسے تعلیم اور ریسرچ وتحقیق کا دور کہا جاتا ہے اگر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سنی سنائی باتوں کو مان لیتے یا دہرانے لگتے ہیں اور حقیقت کا پتہ لگانے کی زحمت نہیں کرتے ان کے بارے میں اس سے زیادہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ لاعلمی ، بے خبری، یا کسی معلوم یا نامعلوم سبب کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں ، افسوس کہ میڈیا سے وابستہ بعض حضرات بھی کبھی کبھی اس طرح کے بھولے پن کا ثبوت دیتے رہتے ہیں ، اور بے سروپا باتیں کہنے یا لکھنے میں ذرا بھی جھجھک نہیں محسوس کرتے۔
(۳) یہ مدارس اور ان کے طلبہ واساتذہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں جس میں کرپشن ، رشوت ، جھوٹ فریب ، دھوکہ ، غیبت ، ڈاکہ اور قتل وغارت گری جیسے جرائم چھوٹے سے گاؤں سے لے کر پارلیمنٹوں اور حکومتی اداروں تک پھیلے ہوئے ہیں، اگر مدارس سے وابستہ کوئی فرد اس ماحول سے متاثر ہو کر کوئی غلط قدم اٹھا لیتا ہے تو وہ یقینا قانون کے سامنے جوابدہ ہے، اور جرم ثابت ہونے پر سزا کا مستحق ہے ، مدارس ایسے افراد کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی ان کا تعاون کرتے ہیں۔
(۴) کسی فرد کے عمل کو پورے ادارے، جماعت یا مذہب سے جوڑ کر دیکھنا بھی اپنے آپ میں ایک قسم کی جہالت اور ساتھ ہی ساتھ ناانصافی ہے، اگر جوڑنے کی یہ روش