کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 305
اس ملک پر مسلمانوں نے کم وبیش آٹھ سو برس حکومت کی ، برطانوی سامراج نے جب اس ملک پر قبضہ جمانا شروع کیا تو مسلمانوں نے ملک کے دیگر باشندوں کو ساتھ لے کر ان سے مقابلہ کیا، انگریزوں کے خلاف جد وجہد کی تاریخ دو سو سال سے زیادہ کو محیط ہے، مسلم عوام کے مذہبی قائدین یعنی مدارس کے تربیت یافتہ علماء کرام ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارا اور ان کے وجود سے وطن عزیز کو پاک کرانے کی نہ صرف تحریک چلائی بلکہ بہ نفس نفیس اس میں شریک ہوئے ، آزادی کی تحریکوں اور جنگوں کی قیادت کی ، انگریزوں کی طرف سے ان کو اس جرم میں سخت سے سخت سزائیں دی جاتی رہیں، پھانسی کے پھندوں پر چڑھایا جاتا رہا ، کالا پانی بھیجا گیا ، لیکن یہ علماء کبھی پیچھے نہیں ہٹے ،بلکہ نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ ملک آزاد ہوگیا۔ مدارس میں تعلیم کی نوعیت: وطن عزیز میں امن وامان، اتحاد ویگانگت اور بھائی چارے کا ماحول قائم کرنے میں مدارس کی پوری تعلیم ہی مفید ومعاون ہے، کیونکہ اس میں اسلام کی تعلیمات سے طلبہ کو روشناس کرایا جاتا ہے جو سراپا دین رحمت ہے، یہاں امن وسلامتی ، اخلاق ومحبت ، دوستی وبھائی چارہ، انسانی ہمدردی، سچائی ، ایمان داری، امانت داری جیسے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ، اس کے ساتھ قتل وغارت گری ، زناکاری ، چوری ، ڈکیتی ، ظلم وتعدی ، بدسلوکی ، بے رحمی اور ان جیسے اخلاق مذمومہ سے اجتناب کی تلقین کی جاتی ہے، یہاں محض ان چیزوں کو پڑھایا ہی نہیں جاتا بلکہ عملی طور پر ان تعلیمات کا نمونہ بننے کی تربیت دی جاتی ہے، یہی نہیں بلکہ جو طلبہ ان تعلیمات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرتے، یا برے کاموں اور غلط حرکتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ان کو مناسب تادیبی کارروائی کے بعد بھی نہ سنبھلنے کی صورت میں مدرسے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں علم کے ساتھ عمل پر کافی زور دیا گیا ہے، پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص بدعملی کی راہ اختیار کرتا ہے اور اسے جو اچھے اخلاق واطوار