کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 304
کے انتظام کی آزادی کی بات کہی گئی ہے، دفعہ(۲۷)میں کسی خاص مذہب کے فروغ کے لیے ٹیکس ادا کرنے کے بارے میں آزادی کی بات مذکور ہے، دفعہ(۲۸)میں بعض تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم پانے یا مذہبی عبادت کے بارے میں آزادی کا بیان ہے۔ ان تمام دفعات میں اقلیت واکثریت کی کوئی قید نہیں ہے، اس کے علاوہ اقلیتوں کے تعلق سے خصوصی طور پر کچھ دفعات ہیں، چنانچہ دفعہ(۲۹)میں اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کا تذکرہ ہے، اور دفعہ(۳۰)میں اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیا گیا ہے۔(ملاحظہ ہو:بھارت کا آئین، ص:۵۱ تا ۵۴) دیگر مذاہب اور دیگر اقلیتوں کی طرح مسلمان بھی آئین کی انہی دفعات کے تحت اپنے مذہب کی تعلیم کا نظم چلارہے ہیں۔ مذہبی تعلیم ہر مذہب کی ضرورت ہے: کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ مذہبی تعلیم صرف اقلیتوں یا صرف مسلمانوں کا خاصہ ہے، بلکہ ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب کے عقائد وتعلیمات کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے اپنے طور پر مذہبی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ بسا اوقات ان کو سرکاروں کی جانب سے جزوی یا کلی امداد بھی ملتی ہے، حتی کہ جہاں آبادی اور آئین اجازت دیتے ہیں سرکاریں خود اپنی سرپرستی میں مذہبی ادارے قائم کرتی ہیں۔ اب اصل موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اس ملک کی وحدت اور سا لمیت کے لیے مدارس اور علمائے مدارس ہمیشہ برادران وطن کے شانہ بشانہ چلے ، اس کے واسطے انہیں جو بھی قربانیاں دینی پڑیں خندہ پیشانی سے دیا، امن وبھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے جو کوششیں ہو سکتی ہیں کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں ، مزید وضاحت کے لیے چند نقاط پر غور کرناچاہیے: مدارس اور جنگ آزادی: