کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 300
(۱) امام مالک علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب موطا میں سلیمان بن یسار سے یہ روایت نقل کی ہے کہ:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے یہودیوں کے پاس ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا کرتے تھے تاکہ اس علاقہ کی پیداوار کا تخمینہ لگائیں اور اسی تخمینہ کے بموجب آدھا حصہ یہودیوں کے لیے اور آدھا حصہ مسلمانوں کے لیے متعین کردیں۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ خیبر پہنچے تو یہودیوں نے کچھ زیورات وغیرہ اکٹھا کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ اسے رکھ لیجیے اور تخمینہ ایسا کیجیے جس سے ہمارا زیادہ فائدہ ہو۔اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے قوم یہود!خدا کی قسم بھلے تم میرے نزدیک اللہ کی سب سے زیادہ مبغوض مخلوق ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں تمہارے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی کروں گا۔اور سنو!جو رشوت تم نے پیش کی ہے وہ سُحت(حرام)ہے، ہم حرام نہیں کھایا کرتے۔یہودیوں نے برجستہ کہاکہ اسی(عدل وامانت)کی وجہ سے آسمان وزمین قائم ہیں۔‘‘(موطا امام مالک:۲؍۱۸۶) (۲) متحدہ ہندوستان کی ایک ریاست ’’پٹیالہ‘‘ تھی، اس ریاست کے والی ’’مہاراجہ بھوپندر سنگھ‘‘ تھے، راجہ نے اس ریاست کے شہر ’’بھٹنڈہ‘‘ کی ایک عدالت میں ایک مسلمان جج متعین کیا، جو اس ریاست کے منصور پور گاؤں کے باشندے تھے، ان کی عدالت میں قتل کا ایک اہم مقدمہ پیش ہوا۔ملزم کافی دولتمند تھا، ایک روز جج کے پاس لالہ نامی ان کے ایک ہندو دوست آئے، دوران گفتگو لالہ صاحب نے مقدمے کا ذکر کیا اور کہا کہ جن صاحب کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے میں ان سے ذاتی طور پر واقف ہوں، وہ مجرم نہیں ہیں، مقدمے کا فیصلہ کرتے وقت ان کا خیال رکھیے گا ، رخصت ہوتے وقت لالہ صاحب نے اس مسلمان جج کی میز پر ایک بڑا سا لفافہ رکھ دیا۔مسلمان جج نے ان سے دریافت کیا:یہ کیا ہے؟ لالہ صاحب کہنے لگے:بچوں کے لیے مٹھا ئی ہے،جب کہ لفافہ میں