کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 299
بے داغ ہے، اس کا ہر صفحہ آئینہ کی طرح صاف ہے جس میں ایک بار پھر ہمیں اپنا عکس دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے خول سے باہر ہورہے انسان کو ایک بار پھر انسانیت کا سبق پڑھایا جاسکے اور ’’معمار حرم بازبہ تعمیر جہاں خیز‘‘ کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بڑے صاف الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ:﴿وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾(سورہ بقرہ:۱۸۸)اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو،نہ حاکموں کو رشوت پہنچاکرکسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا لیا کرو،حالانکہ تم جانتے ہو۔ یہودیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ کہا گیا ہے﴿سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ أَکَّالُونَ لِلسُّحْتِ﴾(سورہ مائدہ:۴۲٩)یہ کان لگا لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور جی بھر بھر کرحرام کے کھانے والے ہیں۔ابن مسعود وغیرہ نے کہا ہے کہ اس آیت میں سحت سے مراد رشوت ہے۔(تفسیر ابن کثیر) شریعت اسلامیہ میں رشوت لینا اور دینا کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ’’ رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘(احمد،ترمذی،حاکم- صحیح الجامع) ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جس کو ہم نے کسی کام پر لگایااور اس کارزق(تنخواہ)متعین کردیا تو اس کے بعد وہ جو کچھ لے گا وہ خیانت ہوگی‘‘(ابوداود،حاکم- صحیح الجامع) ایک مسلمان اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے رشوت جیسے مذموم فعل سے اپنے آپ کو ہمیشہ بچانے کی کوشش کرتا ہے،اس تعلق سے میں صرف دو مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں جن میں ایک ہماری اسلامی تاریخ کے ابتدائی صفحات پر ثبت ہے اور دوسری ماضی قریب کی تاریخ کا روشن باب ہے: