کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 298
براہ راست یا بالواسطہ پشت پناہی حاصل کرکے جملہ محکمۂ جات میں ’’أکل أموال الناس بالباطل‘‘(حرام خوری)کا ایسا دور دورہ ہے کہ الأمان والحفیظ۔ سیاست ہی کے میدان کو لے لیجیے ہر قسم کی قائدانہ صلاحیت سے تہی دست ایک خودساختہ لیڈر رشوت کے بل بوتے پر اپنی پارٹی سے الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ حاصل کرتا ہے، پیسے ہی سے عوام کا ووٹ خریدتا ہے اور انتخاب جیتنے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہا کر کسی نہ کسی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوکر پھر رشوت خوری کا ایسا بازار گرم کرتا ہے کہ بجائے رہنما کے رہزن کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔تعلیم کے شعبے میں دیکھیے تو پیسے سے داخلہ، پیسے پر ترقی، پیسے پر کامیابی اور پیسے پر ڈگری ،یہ سب کچھ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اپنی محنت اور صلاحیت سے آگے بڑھنے والے طلبہ کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔یہی حال ملازمت کے حصول کا ہے، کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری محکمہ میں ملازمت کے حصول کا سارا دارومدار اس مبلغ پر ہے جسے ایک امیدوار خون پسینہ ایک کرکے جمع کرتا ہے یا در در کی ٹھوکریں کھاکر قرض حاصل کرتا ہے اور ان متعلقہ ذمہ داران تک پہنچاتا ہے جو بھوکے بھیڑیے کے مانند اس کو جھپٹنے کے لیے بے قرار بیٹھے رہتے ہیں۔اگر وہ امیدوار واقعی اس منصب کا اہل ہے اور بذریعہ رشوت اس کا تقرر اس پر عمل میں آیا ہے تو پھر بھی بات غنیمت تھی، مگر حال یہ ہے کہ عام طور سے نااہلوں کی مالی پیشکش اہلیت والوں کی پیشکش پر بھاری پڑتی ہے اور اس طرح اول الذکر بازی مار لے جاتے ہیں اور مؤخر الذکر منھ تکتے رہ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر شاخ پر الو بیٹھے نظر آتے ہیں اور چھوٹا بڑا ہر محکمہ ’’اُسْنِدَ الأمْرُ إلٰی غَیْرِ أھْلِہِ‘‘(نااہلوں کے اقتدار)کا جیتا جاگتا نمونہ بنا ہوا ہے۔ایسی صورت میں اگر کوئی خیر کی امید رکھے، اصلاح وسدھار کی بات کرے، امن وامان، ایمانداری ودیانتداری اور عدل و انصاف کا خواب دیکھے تو بھلا کب اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ ایسے مایوس کن ماحول میں امید کی کرن کہیں نظر آرہی ہے تو صرف اسلام اور اس کے سچے متبعین میں، اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں بڑی واضح اور مسلمانوں کی تاریخ بڑی