کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 296
تصویری فتنے کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا دونوں کے ذریعہ نا محرم لڑکیوں کے فوٹو جوعام طور پر برہنہ یا نیم برہنہ ہواکرتے ہیں خوب خوب اشاعت کی جاتی ہے جو نوجوان نسل کے اخلاق و عفت کے لیے کھلا چیلنج ہے۔اس سے بھی زیادہ قابل توجہ امر یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کے کھلونوں اور ٹافیوں کے ساتھ فاجر و بدکار ہیرو اور ہیروئنوں کی تصویریں بطور ’’تحفہ ‘‘شامل کردی جاتی ہیں تاکہ بچے ان فساق وفجار کی تصویروں سے اپنی کاپی کتاب اور کمروں کی در و دیوار کو مزین کریں، ان کو اپنا آئیڈیل مانیں اور ان کی تقلید اور پیروی کو سرمایہ افتخار تصور کریں۔ بہرحال اس آزمائش میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ شرعی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو حتی الامکان اس فتنہ سے بچائے۔اور دوسروں تک بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرے۔جہاں تک اضطراری صورت حال کا تعلق ہے تو علماء نے ایسے موقع پر رفع ضرورت(اضطرار)کے بقدر اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ وغیرہ کے لئے تصویروں کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن پھر بھی اضطرار کے دائرہ کو وسعت دینا بہر حال شرعی تقاضوں کے خلاف ہے۔ تصویروں کی لعنت سے بچنے کے لئے انہیں ضائع کردینا یا روشنائی وغیرہ سے مٹا دینا چاہئے ،مجسمے وغیرہ ہوں تو ان کا سرجدا کردینا چاہئے۔ہاتھ کی کاریگری اور تفریح طبع کے لیے اگر آدمی چاہے تو غیر جاندار چیزوں کی تصویریں بنا سکتاہے اور ان سے آرائش وغیرہ کا کام لے سکتا ہے۔مثلا درختوں، پارکوں،جھرنوں، مسجدوں اور دیگر خوبصورت مناظر کی تصویریں، بشرطیکہ وہ انسان و حیوان کی تصویروں سے خالی ہوں۔ اللہ رب العزت ہر مسلمان کو اس خطرناک عمل سے محفوظ رکھے اور حسب قدرت دوسروں کو بچانے کی توفیق دے۔