کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 295
پاس تھا کہ ایک شخص آیااور عرض کیا کہ اے ابن عباس!میں ایک انسان ہوں ، میری روزی روٹی کا دارو مدار میرے ہاتھ کی کاریگری پر ہے، میں یہ تصویر یں بناتاہوں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:میں تم سے وہی بیان کروں گا جو اللہ کے رسول سے سنا ہے۔جو شخص تصویر بنائے گا اللہ تعالی اسے اس وقت تک عذاب دیتا رہے گا جب تک کہ وہ اس میں روح نہ پھونکے ، اور وہ اس میں کبھی روح نہیں پھونک سکتا، یہ بات سن کر سائل کو زبردست جھٹکا لگا وہ کانپنے لگا اور اس کا چہرہ پیلا پڑگیا۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:اگر تم اس پیشہ میں لگے رہنا چاہتے ہو تو درختوں اور غیر جاندار چیزوں کی تصویریں بناؤ۔(بخاری) الغرض اس جیسی متعدد احادیث میں تصویر کی حرمت بیان کی گئی ہے اور اس پر سخت ترین وعیدیں بھی سنا ئی گئی ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مسلمان کبھی بھی تصویر کشی، تصویر سازی یا اس سے معمولی قسم کا لگاؤ رکھنا گوارانہ کرے گا۔لیکن افسوس کہ تصویری فتنہ کے سیل جرار نے ان حدیثوں کی معنویت کو لوگوں کے دلوں سے محو کردیا ہے اور اس کی اس قدر ترویج و اشاعت کی کہ ان تصویروں سے اجتناب واحتیاط کو محال نہیں تو حددرجہ مشکل ضرور بنا دیا ہے۔غالبا ’’اِذا کَثُرَ الْاِمْسَاسُ قَلَّ الْاِحْسَاسُ‘‘ والے فارمولے کے تحت یہ سب کچھ ہورہاہے جس میں کہا گیاہے کہ کسی چیز کا کثرت وقوع احساس کوکم اور مردہ کردیتاہے، یعنی برائی کو اس قدر عام کردیا جائے کہ لوگ اس کے خوگر اور عادی ہوجائیں اور اسے برائی کہتے ہوئے شرمائیں۔ اس المیے کا سب سے توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل جو اسلام کی عام تعلیمات و مبادیات سے ناآشنا اور غافل ہوتی ہے اور مذکورہ احادیث کے علم سے بے بہرہ اور محروم ہوتی ہے وہ ظاہر ہے کہ موجودہ صورت حال کو نہ صرف یہ کہ جوں کا توں قبول کررہی ہے بلکہ اسے اپنے تہذیبی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کی ایک علامت کے طور پر فخریہ اپنا رہی ہے۔شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے مواقع پر تصویر سازی کا کام جس مسرفانہ اور فاخرانہ انداز میں ہوتا ہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔