کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 292
ہیں کہ اگر میں تمہیں بتا دیتا کہ حق تمہارے مخالفین کے ساتھ ہے تو تم ان سے صلح کرلیتے، اس صورت میں ان کا حق مارا جاتا، مجھے ان کی حق تلفی گوارا نہ تھی۔
ہمارے ملک ہندوستان میں انسانوں کو ذات پات کی بنیادوں پر جس طرح اونچ نیچ کا شکار بنایا گیا ہے اس کی مثال دوسری جگہ ملنی مشکل ہے۔یہ ہندوؤں کا مستقل ایک مذہبی فلسفہ ہے جس کی انتہا یہ ہے کہ اگر شودرکے کان میں ان کی مقدس کتاب کے اشلوک پڑ جائیں تو ان کے کانوں میں سیسہ پلا دینے کا حکم ہے۔خاندانی بنیادوں پر مذہبی مقامات کی تقسیم ہے۔نچلی ذات کا آدمی اعلیٰ ذات کے مذہبی مقام پر نہیں جاسکتا، نہ ان کے ساتھ مذہبی رسوم میں شریک ہوسکتا ہے۔اس تعلق سے وقتاً فوقتاً خبریں آپ کی نظروں سے گزرتی ہوں گی۔
یورپین قوموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو سفید چمڑی کے پیچھے کالے کرتوتوں کا ایک سلسلہ ہے، خاندانی بنیادوں پر ان کے یہاں جو تفریق ہے پڑھے لکھے لوگوں میں شاید ہی اس کی مثال ملے گی۔کالے گورے کا امتیاز ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔
مگر میرے بھائیو!موجودہ دور کے مسلمانوں نے اسلامی عدل وانصاف کے تقاضوں کو جس طرح ملیامیٹ کیا ہے اور کررہے ہیں وہ اسلام کی روشن پیشانی پر بدنما داغ ہے، اور اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے دینی ادارے اور تنظیمیں عدل و انصاف کا خون کرنے میں کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔اور پھر رونا رویا جاتا ہے مسلمانوں کی پسماندگی، بے وقعتی اور مظلومیت کا۔اس لیے شاعر مشرق نے بہت پہلے کہہ دیا تھا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا ،شجاعت کا، عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام د نیا کی امامت کا
اللہ رب العزت ہمیں عدل وانصاف کے تقاضوں کو سمجھنے اور برتنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔