کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 291
رسول تامل نہ کرتے۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔سیکڑوں ایسی مثالیں آپ کے سامنے آئیں گی جن میں آپ دیکھیں گے کہ ظلم وبربریت کی چکی میں پستی اس انسانیت کو عدل وانصاف کی روشن شاہراہ پر لا کھڑا کردیا گیا ہے۔کیا جبلہ بن ایہم غسانی جو غسان کا شہزادہ تھا اس کا واقعہ آپ کے مطالعے سے نہیں گزرا کہ جب اس نے بحالت احرام محض اس وجہ سے ایک بدوی کو تھپڑ مار دیا تھا کہ اس کے پیر سے اس شہزادے کی چادر دب گئی تھی، بدوی امیر المومنین حضرت عمر کی خدمت میں استغاثہ پیش کرتاہے،عدالت فاروقی سے فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ یا تو اس بدوی کو راضی کرو ورنہ بدلہ دینا پڑے گا یعنی یہ بدوی شہزادہ کو تھپڑ مارے گا۔وہ کہتا ہے کہ میں حکمراں ہوں اور یہ ایک کمتر انسان ہے، امیر المؤمنین کا ارشاد ہوتا ہے:اسلام میں سب برابر ہیں۔اس نے کہا کہ ایک دن کی مہلت دی جائے، یہ درخواست منظور کرلی گئی، موقع پاکر جبلہ راتوں رات فرار ہوگیا اور مرتد ہوگیا۔اس کے نزدیک اسلام میں سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ شہزادہ اور گنوار کی وقعت برابر ہے، مگر امیر المؤمنین اس وصف پر مفتخر تھے کہ عدالت میں ایک ذرہ خاک راہ اور ایک کوکب حکومت دونوں کی حیثیت مساوی ہے۔
مشہور قاضی شُرَیْح کو کون نہیں جانتا۔ایک بار ان کا بیٹا عرض کرتا ہے کہ ابا جان کچھ لوگوں سے میرا جھگڑا چل رہا ہے، اس کی یہ نوعیت ہے،میں آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ اس تنازعہ میں اگر میرے حق میں فیصلہ ہونے والا ہوتو آپ کی عدالت میں پیش کروں اور اگر میرے حق میں فیصلہ ہونے کی امید نہ ہو تو میں ان لوگوں سے کسی طرح صلح کرلوں اور معاملہ کو آپ کی عدالت میں نہ لے جاؤں، قاضی شریح معاملے کی نوعیت سننے کے بعدکہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ہماری عدالت میں اسے پیش کردو۔اگلے دن مقدمہ پیش ہوا۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد قاضی شریح نے اپنے بیٹے کے خلاف فیصلہ سنادیا۔گھر واپس ہونے پر بیٹا باپ سے شکوہ کرتا ہے کہ ابا جان!میں نے اسی لیے آپ سے مشورہ کیا تھا کہ اگر میرے حق میں فیصلہ نہ بنتا ہو تو میں عدالت میں شکست کی ذلت نہ اٹھاؤں بلکہ صلح کرلوں۔قاضی کہتے