کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 290
گئی ہے کہ کسی قوم سے دشمنی تم کو عدل کی راہ سے ہٹانے کا سبب نہ بنے:﴿وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾
یہ بھی ہدایت ہے کہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی وجہ سے اپنا، اپنے والدین کا یا اپنے دیگر متعلقین کا خسارہ ہوتا دکھائی دے تب بھی اس راہ سے ہٹنا نہیں ہے۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْط شُھَدَائَ لِلّٰہِِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْن﴾ایمان والو!عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ اگر چہ وہ گواہی خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ کے یا رشتے دا ر عزیزوں کے۔
گھر کی چہار دیواری میں بال بچوں کے درمیان عدل وانصاف کو ملحوظ رکھنے کے لیے ’’اِتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْدِلُوْا بَیْنَ أوْلَادِکُمْ‘‘کے ذریعہ تنبیہ کی گئی ہے ،تو بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرنے پر’’ مَنْ کَانَتْ لَہُ زَوْجَتَانِ فَمَالَ إلٰی إحْدَاھُمَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہُ مَائِلٌ‘‘کی وعید سنائی گئی ہے۔یعنی جس شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف(زیادہ)میلان رکھے(محبت اور میلان میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھے)تو ایسا شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ جھکا ہوا ہوگا۔
عامۃ الناس کے درمیان فیصلہ کرتے وقت عدل کا دامن چھوڑنے والے کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے تو انصاف ور حاکم کو قیامت کے دن عرش الٰہی کاسایہ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں رہنے کی بشارت سنائی گئی ہے:سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہِ یَوْمَ لَاظِلَّ إلَّا ظِلُّہُ۔
اسلامی عدل وانصاف کی سنجیدگی اور اس کی جامعیت وقطعیت کا اندازہ لگانا ہوتو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجز بیان جملے کوبار بار دہرائیے:وَاللّٰہِ لَوْ أنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔دختر رسول بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹنے میں