کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 29
ان کی قراء ت سے مطبوعہ کتابت کی صحت کی جاتی ے، مگر ان حفاظ کو مطبوعہ یا قلمی کتاب سے صحت کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی ، اگر کسی حافظ کو اپنے پڑھنے میں کہیں شبہہ پڑے گا تو وہ اس کی صحت دوسرے حفاظ ہی سے جاکر کرے گا۔ یہ ایسی زبردست پیش گوئی ہے کہ تمام دنیا اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے، حفاظت کا ایسا انتظام بالکل لاثانی ہے،اور محض منجانب اللہ تعالی ہے۔‘‘ (رحمۃللعالمین:۳؍۲۶۲-۳۶۲) اس کے بعد قاضی صاحب ایک اور پیش گوئی کا ذکر کرتے ہیں: ’’ پانچویں پیش گوئی:کہ قرآن مجید کو حفظ کر لینا آسان ہوگا۔ ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ﴾(سورہ قمر:۱۷) ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ پیش گوئی چہارم کے تحت میں تحریر کیا گیا ہے کہ ساری کتاب کو حفظ کرنے کا خیال ہی بالکل اچھوتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب مسلمانوں نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں دنیا کی تمام اقوام اور ممالک کے سامنے قرآن مجید کو ازبر سنانا شروع کیا تب دوسروں کو بھی امنگ آنی چاہیے تھی اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کا جوش پیدا ہونا چاہیے تھا کہ وے بھی اپنے اپنے مذہب کی کتاب کو حفظ کر لیتے کیونکہ ان کے سامنے یہ نظیر موجود تھی۔ مگر کوئی بھی ایسا نہ نکلا ، نہ یہودی نہ عیسائی ، نہ پارسی نہ ہندو ، اور نہ وہ جس نے اپنے پسندیدہ مذہب کی پسندیدہ کتاب کو حفظ کر لیا ہو، اس کی وجہ خود قرآن پاک نے بتلادی ہے کہ یہ خصوصیت بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید ہی میں رکھ دی ہے کہ وہ یاد کرنے والوں کو جلد اور آسانی سے یاد ہو جاتا ہے۔(ایضا) علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں آیت:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾(سورہ حجر:۹)کی تفسیر کے ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا تذکرہ یہاں