کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 289
عدل وانصاف
عدل وانصاف اتنا بہترین وصف اور اس قدرپسندیدہ خصلت ہے کہ ہر فرد اور ہر جماعت وقوم اس سے اپنے آپ کو متصف کرنے یا متصف گرداننے کی متمنی ہوتی ہے۔یہ انسانی معاشرے کی ایسی ضرورت ہے کہ اس کے بغیرپورا نظام افراتفری کا شکار بنا رہتا ہے۔
اسلام اس وصف کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے اور اپنے مانے والوں کو اس تعلق سے کیا ہدایتیں دیتا ہے؟اسی کی وضاحت یہاں مقصود ہے۔تو واضح ہو کہ عدل وانصاف اسلام اور اسلامی تعلیمات کا وہ طرۂ امتیاز ہے جس سے دیگر ادیان وملل اور تحریکات وتنظیمات کا دامن خالی ہے۔دعوے تو سب کے یہاں ہیں مگر اس دعوے کی عمل اور مثال سے تصدیق کا جو نمونہ اسلام کے پاس ہے وہ کہیں اور ملتا نظر نہیں آتا۔قرآن کا اعلان اس سلسلے میں بہت واضح ہے اور بہ تکرار آیا ہے:
﴿وَأَقْسِطُوْا إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ المُقْسِطِیْنَ﴾
لوگو!انصاف کرو، یقینا اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
﴿إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ﴾
بے شک اللہ تعالی عدل کا اور بھلائی کا حکم دیتا ہے۔
﴿وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ﴾
جب تم کوئی بات کہو تو عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھو چاہے اس کی زد کسی رشتہ دار ہی پر کیوں نہ پڑے۔
اور ان جیسی درجنوں آیتوں کے ذریعہ اہل ایمان کو اس نیک خصلت سے آراستہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے تو دوسروں تک عدل وانصاف کا دائرہ بڑھاتے ہوئے یہ ہدایت کی