کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 287
انہوں نے کچھ سامان اپنے شریک تجارت حفص بن عبد الرحمن کے پاس بھیجا اور ان کو مطلع کردیا کہ اس میں ایک کپڑا عیب دار ہے ، اس کا عیب لوگوں کو بتادیں، حفص بن عبد الرحمن نے یہ مال فروخت کردیا مگر عیب بتانا بھول گئے، ناقص کپڑے کے عوض پورا دام وصول کیا، روایت ہے کہ اس کا دام تیس یا پینتیس ہزار(درہم)تھا، امام ابوحنیفہ نے اپنے شریک تجارت سے نہ صرف علیحدگی اختیار کرلی، بلکہ اس قیمت کو اپنے پاکیزہ مال میں ملانا بھی گوارا نہ کیا اور اسے کل کا کل خیرات کردیا۔(اسلام میں عدل اجتماعی:سید قطب، ص:۳۱۵-۳۱۶)
یونس بن عبید بھی کپڑوں کے ایک تاجر تھے، ان کی دکان میں مختلف داموں کے کپڑے تھے، ایک قسم تھی جس کے ہر جوڑے کادام چارسو تھا، اور دوسری قسم کا دام دوسو فی جوڑا تھا، یہ نماز کے لیے گئے اور اپنے بھتیجے کو دوکان پر چھوڑ گئے، اسی اثنا میں ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے چار سو کی قیمت کا ایک جوڑا مانگا، لڑکے نے اسے دوسو والے جوڑے دکھائے، وہ اسے پسند آگئے اور راضی خوشی ان کو(چار سو میں)خرید کر لے گیا، وہ کپڑا ہاتھ میں لیے جارہاتھا کہ راستہ میں یونس بن عبید کا سامنا ہوگیااور وہ اپنا کپڑا پہچان گئے، اور انہوں نے دیہاتی سے دریافت کیا کہ اسے کتنے میں خریدا ہے؟ اس نے جواب دیا:چار سو میں۔انہوں نے کہا یہ تو دوسو سے زیادہ کا نہیں ، لوٹ جاؤ اور اسے واپس کردو۔اس نے جواب دیا کہ یہ جوڑا ہمارے یہاں پانچ سو کا ملتا ہے اور میں نے اسے راضی خوشی خریدا ہے، یونس نے کہاکہ واپس چلو ، کیوں کہ دین کی راہ میں خیر خواہی دنیا جہان کی دولت سے بہتر ہے۔یہ اسے اپنی دوکان پر لے گئے اور دو سو درہم واپس کردیا، پھر انہوں نے اپنے بھتیجے کو ڈانٹ سنائی اور کہا:’’ تجھے شرم نہ آئی، تجھے خدا کا خوف لاحق نہ ہوا، صد فی صد نفع لیتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی نہیں برتتا!‘‘ لڑکا قسم کھانے لگا کہ خریدار نے راضی خوشی مال خریدا تھا ، اس پر انہوں نے کہا:’’تو خود اپنے لیے جو پسند کرتاہے وہی تونے اس کے لیے کیوں نہ پسند کیا۔‘‘ (ایضا، ص:۳۱۶)
محمد بن منکدر سے مروی ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے ملازم نے ایک