کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 286
گا یا ناپسند؟ جو بھی فیصلہ کرے اس کو دوسروں کے تعلق سے بھی برتنے کی کوشش کرے۔اگر مسلمان صحیح معنوں میں اس ہدایت پر غور کریں اور دوسروں کے ساتھ کیے جانے والے ہر سلوک اور ہر معاملہ پر اس کو یاد رکھیں اور اس پر عمل کریں تو فتنہ وفساد، لڑائی، جھگڑا، لوٹ کھسوٹ، رشوت، دغابازی، دھوکہ دھڑی اور بہت ساری سماجی برائیوں کا خاتمہ یقینی ہے۔
عملی نمو نہ:
اس تعلق سے اسلامی تعلیمات پر اہل ایمان نے پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے اور بھلائی وخیرخواہی کے ایسے نمونے چھوڑے ہیں کہ آج کی خود غرض اور مفاد پرست دنیا میں اس کا تصور بھی مشکل ہے۔اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے چند نمونوں پر غور کریں:
حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ جن کی حدیث ابھی ذکر کی گئی تھی ان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے غلام کو ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا، غلام نے تین سو درہم میں ایک گھوڑا خریدا اور گھوڑے کے مالک کو قیمت دینے کے لیے ساتھ لائے، حضرت جریر نے گھوڑا دیکھنے کے بعد اس کے مالک سے کہا:تمہارا گھوڑا تین سو درہم سے بہتر ہے، کیا تم اسے چار سو درہم میں بیچوگے؟ گھوڑے کے مالک نے کہا:اے ابو عبد اللہ!آپ کو اختیار ہے، پھر حضرت جریر نے گھوڑے والے سے کہا کہ پانچ سو درہم میں بیچوگے ؟ اور اس طرح قیمت بڑھاتے بڑھاتے آٹھ سو درہم میں اس گھوڑے کو خرید ا۔لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا، جو گھوڑا آپ کو تین سو میں مل رہا تھااس کی قیمت آپ نے آٹھ سو کیوں دی؟ انہوں نے جواب دیا:’’بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلَی النُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘۔میں نے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت اور معاہدہ کیاہے۔اسی لیے گھوڑے کے مالک کے ساتھ میں نے خیرخواہی کی۔(شرح مسلم للنووی:۱؍۲۹۵،کتاب الایمان)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کرداردیکھیے: