کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 277
آپ نے فرمایا:تجھے جہنم کی آگ ضرور چھوتی۔‘‘(مسلم) دینی معاملات میں غصہ: غصہ کی ممانعت سے متعلق یہ تمام باتیں دنیاوی معاملات میں غصے سے متعلق ہیں، یعنی دنیاوی معاملات اور اپنے نفس کے ایسے حقوق جن کا اثر دوسروں پر نہیں پڑتا ان میں غصہ نہ کرنا چاہیے یا غصہ آنے کی شکل میں اسے دبانے اور صبروعفو کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، لیکن جن امور کا تعلق دین وشریعت سے ہو اور جب اللہ کی حرمتیں پامال ہورہی ہوں تو ایسے مواقع پر شرعی حدود کے اندر قوت غضبیہ کا استعمال ضروری ہے، اور ایسا غصہ مذموم نہیں بلکہ قابل تعریف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی معاملے میں کبھی انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حرمت کو توڑا جارہا ہو(حرام چیزوں کا ارتکاب کیا جارہا ہو)تو اللہ تعالیٰ کے لیے آپ انتقام لیتے(یعنی اس کے مرتکب کو سزا دیتے اور مؤاخذہ کرتے)(بخاری ومسلم) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی حدود توڑنے والے کو معاف کردینا شرعی مطلوب نہیں بلکہ بے غیرتی ہے۔ دنیاو ی امور اور اپنے ذاتی معاملات میں غصہ نہ کرنے کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا، آپ کے جسم پر ایک موٹے کنارے والی نجرانی چادر تھی، راستے میں آپ سے ایک دیہاتی ملا، اس نے آپ کی چادر پکڑ کر زور سے کھینچا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے کی جانب دیکھا تو زور سے کھینچنے کی وجہ سے اس چادر کے حاشیہ کا آپ کی گردن میں نشان پڑ گیاتھا، اس دیہاتی نے کہا:اے محمد!آپ کے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے مجھے بھی دینے کا حکم کریں۔آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیے، آپ نے اسے دینے کا حکم فرمایا۔(بخاری ومسلم)