کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 276
رسول!میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہو ں(ان کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہو ں)وہ مجھے کاٹنے(قطع تعلق)کی کوشش کرتے ہیں ، میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ، میں ان کی باتوں کو برداشت کرتا ہوں اور صبر کرتا ہوں وہ میرے ساتھ نادانی سے پیش آتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَئِنْ کُنْتَ کَمَا قُلْتَ فَکَاَنَمَّا تُسِفُّہُمُ الْمَلَّ، وَلاَ یَزَالُ مَعَکَ مِنَ اللّٰہِ ظَہِیْرٌ عَلَیْھِمْ مَادُمْتَ عَلٰی ذٰلِکَ‘‘ اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے ذکر کیا تو گویا ان کے منھ میں گرم راکھ ڈال رہا ہے، اور ان کے مقابلے میں تیرے ساتھ برابر اللہ کی طرف سے ایک مدد گار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا۔(مسلم) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ کسی کے چھیڑنے پر غصہ نہ ہونے اور خاموش رہنے والے کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر میں اس کو جواب نہ دوں گا تو بزدل قرار پاؤں گا اور وہ فاتح قرار پائے گا ، بلکہ ایسے شخص کی طرف سے اللہ کا مقرر کردہ فرشتہ جواب دیتا ہے جو یقینا بہت بڑی بات ہے ، دوسری بات یہ کہ جواب دینے اور تو تو میں میں کرنے میں شیطان کو در آنے کا موقع ملتا ہے اور حالات بگڑ جاتے ہیں۔ حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی:’’خبردار اے ابومسعود!‘‘ مگر میں غصے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے آواز کو نہیں سمجھ سکا ، جب آواز دینے والا مجھ سے قریب ہوا تو دیکھاکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔آپ فرمارہے تھے:’’خبردار اے ابومسعود!اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے کہیں زیادہ قادر ہے جتنا تو اس غلام پر ہے‘‘ تو میں نے کہا:اس کے بعد میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی ہیبت سے کوڑا میرے ہاتھ سے گر گیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول!یہ غلام اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے، تو آپ نے فرمایا:’’اگر تو آزاد نہ کرتا تو آگ تجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ، یا