کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 262
۴ - ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں:’’ جو شخص لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود ان کی باتیں سنتا ہے قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلایا جائے گا۔‘‘(صحیح بخاری) ان تمام حدیثوں میں دوسروں کے ساتھ خراب سلوک کرنے بالخصوص ان کے بھیدوں کو جاننے کی ناروا کوشش کرنے والوں کے لیے سخت قسم کی وعیدیں سنائی گئی ہیں ، شریعت کی جانب سے کسی کام پر مقرر کی جانے والی سزا کی سختی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ کام انتہائی گھناؤنا اور خطرناک ہے، دوسروں کی تاک جھانک میں رہنے والا اور ان کو ایذا پہنچانے کی کوشش کرنے والا شخص نہ صرف یہ کہ آخرت میں سزا کا مستحق ہوگا بلکہ دنیا میں بھی وہ عقاب الٰہی سے دو چار ہوگا ، ’’شر‘‘ سے متصف ہوگا ، وہ اللہ کی عطا کی ہوئی بصارت کی نعمت سے محروم کر دیے جانے کے لائق ہے۔ دوسروں کے حقوق کی پامالی کرنے والا شخص اپنے آ پ کو اللہ تعالی سے بزعم خویش جتنا بھی قریب سمجھے ، فرائض ونوافل کی ادائیگی کا جس قدر بھی اہتمام کرے مگر اس کی یہ تمام نیکیاں بروز قیامت سلب ہو کر رہ جائیں گی ، اور حساب وکتاب کے بعد اس کے جہنم رسید ہونے کا بھی امکان ہے ، اس بات کو سمجھنے کے لئے اس حدیث پرغور کرنا چاہئے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مفلس کس کو کہتے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ مفلس اسی کو کہا جاتا ہے جس کے پاس درہم(پیسہ)اور پونچی نہ ہو۔آپ نے فرمایا:میری امت میں مفلس وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا ، لیکن ساتھ ہی وہ کسی کو گالی دیے ہوگا ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی ، کسی کا مال کھایا ہوگا ، کسی کا خون بہایا ہوگا ، کسی کی پٹائی کی ہوگی۔لہذا ان تمام مظلوموں میں سے ہر ایک کو اس شخص کی نیکیوں میں سے کچھ نہ کچھ دیا جائے گا ، اگر اس کی نیکیاں مظلوموں میں پورے طور پر تقسیم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو مظلوموں کی گناہیں لے کر اس شخص پر لاد دی جائیں گی پھر اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔‘‘(صحیح مسلم)