کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 25
کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ علم دین کا دائرہ روحانیت اور عبادت تک ہی محدود ہے، دنیاوی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ تصور عیسائیت، بدھ مت اور دیگر مذاہب وادیان کے ساتھ تو درست ہوسکتا ہے مگر اسلام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔یہ محض دعویٰ نہیں ہے۔ادیان کا تقابلی مطالعہ کرکے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے، بڑے بڑے مفکرین اور انصاف پسند دانشور اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اسی طرح دنیاوی علوم پر غیر مسلموں کی جو اجارہ داری دکھائی جارہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام کا رویہ دنیاوی علوم کے تئیں مثبت نہیں ہے یہ سراسر مغالطہ ہے جس کے پیچھے بغض وحسد کا جذبہ کار فرما ہے یا کم فہمی۔ہاں اسلام اس علم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جو انسان کو اس کے خالق سے دور، اور دین سے بے زار کردے۔دنیا داروں ، مفاد پرستوں اور ملحدوں نے دنیاوی علوم کو کچھ اس طرح کا بنادیا ہے، جیسا کہ شاعر اس کا شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ ہمارے اسلام کی تعلیم تو دین ودنیا دونوں کی جامع ہے:﴿وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللّٰهُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلَا تَنسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا﴾(سورہ قصص:۷۷)کے اعلان میں کیا کسی طرح کا کوئی غموض ہے؟ ہرگز نہیں، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں مختلف دینی اداروں کی سرپرستی میں عصری اسکول وکالجز بھی مدارس کے شانہ بشانہ قائم ہیں جن کے قیام اور انتظام کا سہرا کسی اور کے نہیں علماء دین ہی کے سر ہے۔ مختصر یہ کہ علم دین مخلوق کو خالق سے جوڑنے کا ذریعہ، عقیدہ کا محافظ، شریعت کا پاسبان، زیغ وضلال سے حفاظت کا ضامن، دنیا وآخرت کی بھلائی کا جامع، زندگی کے ہر شعبے کو محیط اور خیروبرکت سے مالامال ہے۔اللہ رب العزت ہماری نیتوں کو درست کردے، اور اس علم دین کے تقاضوں کو سمجھنے اور برتنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللّٰہُمَّ إنَّا نَسْألُکَ عِلْماً نَافِعاً، وَقَلْباً خَاشِعاً، وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً