کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 238
کرے ، اگر اس کی وجہ سے اسے قتل کر دیا جانے والا ہو تو اس کو برداشت کر ے مگر اپنی جان بچانے کے لیے کسی مسلمان کی جان نہ لے۔ یہی وہ اصول وضوابط ہیں جن کی رعایت حالت اضطرار میں کسی حرام شیٔ کے تناول یا ارتکاب کے وقت ضروری ہے ، اب ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عامۃ الناس ان حدود وقیود کا کس درجہ پاس ولحاظ کرتے ہوں گے ، انہیں تو ان تفصیلات کا علم ہی ہو تو غنیمت ہے تطبیق وتنفیذ تو بہت دور کی بات ہے۔ دکتور عجیل نشمی فرماتے ہیں کہ بعض لوگ حرام چیزوں کے استعمال میں توسع کر کے اپنے اوپر بڑا ظلم کر تے ہیں ، ان کے نزدیک حرام کا استعمال بسااوقات مکروہ بلکہ مباح سے بھی آسان ہو تا ہے، اور وہ یہ دلیل پیش کر تے ہیں کہ مجبوری اور اضطرار کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے ہیں ، جب آپ ان سے مجبوری کے بارے میں سوال کریں گے تو ان کے جوابات عجیب طرح کے ہوں گے، آج کل سب سے زیادہ سودی معاملات کا ارتکاب لوگ مجبوری کے نام پر کرتے ہیں ، اگر اس تعلق سے ان کی مجبوری کے بارے میں آپ استفسار کریں گے تو وہ کہیں گے کہ انہوں نے غیر سودی قرض حاصل کر نے کی کوشش کی مگر نہیں پاسکے، جبکہ انہیں گھر کی تعمیر مکمل کرانی ضروری تھی، یا اپنے بچوں کے تعلیمی مصارف کے لیے یا قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے کی ضرورت تھی، کوئی یہ کہے گا کہ اسے گاڑی کی یا کسی ضروری الکٹرانک سامان جیسے گرمی میں ایرکنڈیشن کی یا ان جیسے دوسرے سامانوں کی ضرورت تھی، اخلاق اور عفت وعصمت سے متعلق معاملہ ہو تو بدکاری میں مبتلا شخص یہ علت پیش کر تا ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی یا شادی کے اخراجات برداشت کر نے سے قاصر ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کر سکتا اس لیے وہ زنا کرنے پر مجبور ہے، کوئی یوں حرام کا ارتکاب کر تا ہے کہ رشوت دیتا ہے اور وجہ یہ بیان کر تا ہے کہ وہ اس کے لیے مجبور ہے کیونکہ اگر وہ رشوت کا سہارا نہیں لیتا تو مارکیٹ میں نہیں رہ پائے گا نہ اس کو کوئی ٹھیکہ ملے گا، یا یہ کہ سرکاری آفسوں میں اس کا کام بغیر رشوت دیے نہیں ہو پائے گا، یہ سب ایسی مثالیں اور واقعات ہیں جن کے بارے میں ہم سے اکثر