کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 237
دکتور نشمی مزید فرماتے ہیں کہ تجربات بتلاتے ہیں کہ اکثر لوگ جو حرام چیز کو مباح ٹھہرانے کے لیے اضطرار اور مجبوری کا حوالہ دیتے ہیں ان کا معاملہ ضرورت کے مرحلے سے متجاوز نہیں ہوتا، لوگ حاجت(یعنی ضرورت)اور اضطرار میں فرق نہیں کرتے، اضطرار اس کیفیت کا نام ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا کہ اس کا تحقق ان چیزوں میں ہوتا ہے جن کو استعمال میں نہ لانا ہلاکت کا سبب بنے یا ہلاکت سے قریب کردے، اور حاجت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے استعمال نہ کر نے سے آدمی پریشانی اور مشقت میں پڑجائے، نہ یہ کہ ہلاکت کی حدکو پہنچ جائے ، مثلا ً کوئی شخص اتنا ہی بھوکا ہے کہ اگر وہ کچھ نہ بھی کھائے تو اس کی جان جانے کا خطرہ نہیں ہے ، بلکہ محض پریشان ہونے اور مشقت میں واقع ہو نے کا اندیشہ ہے ، ایسے شخص کے لیے حرام شیٔ تناول کر نے کی اجازت نہیں جب تک حد اضطرار کو نہ پہنچ جائے، اور حد اضطرار یہ ہے کہ ہلاکت کا خوف ہو یا اس کا گمان غالب ہو۔ اضطرار کے سلسلے میں ان حدود و قیود کا لحاظ نہ کر نے والوں کو آپ دیکھیں گے کہ دوسرے فارغ البال حضرات کی طرح کھانے پینے کے معاملے میں خوب توسع سے کام لیتے ہیں یا اپنے مکان کی توسیع، مرمت یا آرائش وزیبائش میں دوسروں ہی کی طرح بلا حدود وقیود(اضطرار کا حوالہ دیتے ہوئے حرام مال)خرچ کر تے ہیں۔ ۴- دو حرام چیزوں میں سے جس کی حرمت کم درجے کی ہوگی حالت اضطرار میں اسی سے ضرورت پوری کی جائے گی اور سخت حرمت والی چیز سے اجتناب کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص کو زنا پر مجبور کیا جائے یا کسی مسلمان کے اعضائے جسمانی کو کاٹنے پر مجبور کیا جائے بصورت دیگر ترک نماز یا نبی کو سب وشتم کرنے یا کلمہ کفر کی ادائیگی کے لیے کہا جائے تو ان بعد والی معاصی کے ارتکاب میں پہلے والی سے نسبتاً کم شدت ہے کیونکہ ایسے مواقع پر اس کی رخصت ہے۔ ۵- مضطر شخص ایسے عمل کا ارتکاب نہ کرے جس کے سلسلے میں کسی رخصت کا قطعاً احتمال نہیں ہے، مثلاً اگر کسی شخص کو کسی مسلمان آدمی کے قتل پر مجبور کیا جائے، تو اس کو قتل نہ