کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 236
ہو گیا ہو اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں غذا کے حصول کا کوئی امکان نہیں اور دھیرے دھیرے اس پر بھوک کا اس قدر غلبہ ہوا کہ اس کی ہلاکت یقینی معلوم ہونے لگی، دریں اثناء ایک مردہ بکری اس کو مل گئی، اب اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس مردہ بکری کا گوشت نہیں کھاتا ہے تو پھر جان بچانے کی کوئی دوسری سبیل اس کے سامنے نہیں ہے، ایسا شخص ’’مضطر‘‘ کے حکم میں ہوا اور ’’الضرورات تُبیح المحظورات‘‘والے قاعدے کی رو سے اسے اپنی زندگی کی بقا کی خاطر اس مردار کو کھانا جائز ہوا، البتہ اس سے وہ اتنی ہی مقدار میں کھا سکتا ہے جس سے اس کی ہلاکت کا خطرہ ٹل جائے، نہ یہ کہ ذبح کی گئی بکرے کے گوشت کی طرح پیٹ بھر کر کھائے، قرآنی آیت سے مستنبط دوسرے قاعدہ ’’الضرورۃُ تُقَدَّرُ بِقَدرھا‘‘ کا یہی تقاضا ہے۔ دکتور عجیل نشمی نے اس قاعدے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض لوگ ’’اضطرار‘‘ کے نام پر حرام چیز کو حلال تصور کر تے ہوئے اس سے خوب خوب استفادہ کر تے ہیں اور اضطرار کی حدود وقیود کو بھول جاتے ہیں ، مثلاًکبھی کبھی انسان اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے پینے کے تعلق سے بڑی مجبوری اور اضطرار کی کیفیت سے دو چار ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے سودی قرض کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کیونکہ اس نے محنت مزدوری کر نے یا قرض حسن حاصل کر نے کی بھر پور کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا، اب اس نے سودی قرض لیا اور ضرورت سے زیادہ لیا پھر بار بار لینے لگا، گویا اضطراری کیفیت کی کوئی حد ہی نہیں ہے، حالانکہ خوردونوش کے سلسلے میں سد رمق کی حد متعین ہے، اور جب سبب اضطرار ختم ہوجائے تو ذخیرہ اندوزی اور بار بار اس فعل کا ارتکاب حرام ہے…کبھی کبھی کوئی چیز واقعی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن شرعی ضرورت یعنی حد اضطرار میں وہ داخل نہیں ہوپاتی، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کرائے کا مکان لے کر اس کا کرایہ ادا کر نے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ سودی قرض لے کر مکان خریدے، رہنے کیلئے مکان اگرچہ ضروری چیز ہے لیکن یہ اضطرار کے درجے میں نہیں آتا، کیونکہ اضطرار کا تحقق وہاں ہوتا ہے جہاں زندگی خطرے میں پڑتی ہو۔