کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 235
پاس ایسی عمدہ گاڑی ہوتی ہے جس کی قیمت تین گاڑیوں کی قیمت کے برابر ہوتی ہے، ایسے شخص کو چاہیے کہ اپنی ضرورت پوری کر نے کے لیے اپنی مملوکہ چیزوں میں سے کچھ کو فروخت کردے، بہت سارے سودی لین دین کر نے والے جو ’’اضطرار‘‘ کا سہارا لیتے ہیں وہ محض تجارت اور کاروبار کے واسطے سود کا لین دین کر تے ہیں، حالانکہ ’’اضطرار‘‘ کے مقابلے میں تجارت تو خوشحالی لانے والا ایک عمل ہے، ’’ضرورت‘‘ سے مراد تو خوردونوش کی وہ ضروری اشیاء ہیں جن پر زندگی کا دارومدار ہوتا ہے ، یہاں تک کہ کسی شخص کے گزر بسر کا ذریعہ اگرصرف اس کی تنخواہ ہو او ر وہ ناکافی ہو تو اس کو بھی بنیاد بنا کر وہ سودی قرض نہیں لے سکتا ، اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے کہ آدمی سودی بینک میں ملازمت کر ے اور یہ دلیل دے کہ اس کے علاوہ اس کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ، حالانکہ اس نے کوئی دوسرا کام تلاش ہی نہیں کیا، بہرحال اضطرار کی حد یہی ہے کہ محض زندگی باقی رکھنے والی چیز کے حصول کی نیت سے وہ اس قسم کی ملازمت کر ے اور دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھے، اگر بغیر اس ملازمت کے اس کا کام چل سکتا ہو تو پھر اس میں لگے رہنا اس کے لیے جائز نہ ہو گا ،اگر کوئی شخص غیر اسلامی ملک میں رہتا ہے اور ’’مجبوری‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا حوالہ دے کر ایسا گوشت کھاتا ہے جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ غیر شرعی طریقہ سے ذبح کیے ہوئے جانور کا یہ گوشت ہے ، حالانکہ اس کے سامنے متبادل غذائیں مثلاً مچھلی وغیرہ موجود ہیں، ایسے شخص کا بھی وہی معاملہ ہے جس کا ذکر ہوا، دوسری بات یہ ہے کہ گوشت خوری ترک کر دینے سے جان جانے کا اندیشہ بھی نہیں ہے۔ ۳- اضطراری صورت میں اسی مقدار میں حرام شیٔ کا استعمال یا اس سے استفادہ کیا جائے جس سے ’’ضرورت‘‘ دفع ہو سکے، کیونکہ مذکورۃ الصدر قاعدے کے ساتھ ہی علماء نے یہ قاعدہ بھی ذکر کیا ہے کہ’’ الضرورۃُ تُقَدَّرُ بِقَدرھا‘‘ اس قاعدے کا استنباط آیت میں وارد الفاظ ’’غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ‘‘سے کیاگیا ہے۔ اس قاعدے کی و ضاحت کرتے ہوئے اہل علم نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کا زاد راہ ختم