کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 226
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔حضرت ابوذر نے کہا یہ لوگ نامراد ہوئے اور خسارے میں پڑے، وہ ہیں کون لوگ؟ اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: ’’(۱)ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا (۲)کسی کے ساتھ بھلائی کرکے احسان جتلانے والا (۳)جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا۔‘‘ (مسلم) ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے جھوٹی قسم کھائی تاکہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کے مال پر ناحق قبضہ کرلے وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر بہت زیادہ غضب ناک ہوگا۔‘‘ (بخاری) حدیثوں میں کاروبار کے تعلق سے جھوٹی قسم کھانے کی تین شکلیں بیان کی گئی ہیں: (۱) قیمت خرید سے متعلق جھوٹی قسم کھانا، یعنی یہ کہنا کہ یہ سامان میں نے اتنے میں خریدا ہے لہٰذا اس سے کم قیمت پر نہیں بیچ سکتا۔(مسلم) (۲) جھوٹی قسم کھاکر یہ کہنا کہ اس سامان کا اتنا دام لگ چکا ہے۔ (بخاری) (۳) یہ قسم کھانا کہ یہ سامان میں اس قیمت پر ہرگز نہیں بیچوں گا، مگر جب گراہک کو واپس جاتے دیکھے تو اسی قیمت پر اسے بیچ دے۔(صحیح ابن حبان) یہ اور اس جیسی جھوٹی قسم کی تمام صورتیں آدمی کے دین وایمان، اس کی تجارت اور اس کی عاقبت کے لیے بہت خطرناک ہیں ،لہٰذا چند سکوں کے وقتی فائدے کے لیے ایسی چیزوں کا سہارا لینا کسی طرح عقلمندی کا کام نہیں۔ ۶- کثرت سے قسم کھانا: کسی شک وشبہہ کو دور کرنے یا محض اپنی بات کی سچائی کو واضح کرنے یا کسی اور جائز مقصد کے لیے اللہ کی قسم کھانا جائز ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا شرعا حرام ہے، متعدد حدیثوں میں اس کی ممانعت آئی ہے، اسی طرح جھوٹی قسم کھانا ہر حال میں حرام ہے