کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 224
اہمیت ہے، دوکاندار گراہک سے جووعدہ کرے اور گراہک دوکاندار سے جو وعدہ کرے دونوں کو پورا کرنا چاہیے، چاہے وہ سامان کی فراہمی کا ہو یا پیسے کی ادائیگی کا، یا کسی اور طرح کا وعدہ ہو، مقررہ وقت اور مقررہ طریقے سے اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ آج کے بیشتر کاروباریوں میں یہ وبا عام ہے کہ وہ عموما وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہفتہ عشرہ میں ادائیگی کا وعدہ کرتے ہیں اور مہینوں ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں، زبان اور قول وقرار کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔اسلام اس کا سخت مخالف ہے، وہ وعدہ خلافی اور بے وفائی کو منافق کی علامت بتلاتا ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں:جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ ’’اگرچہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔‘‘ آدمی اگر ادائیگی کی استطاعت کے باوجود ٹال مٹول کرتا ہے تو حدیث میں اس کے اس عمل کو ’’ظلم‘‘ کہا گیا ہے، یعنی ایسا شخص ظالم ہے، اسے ظالموں کا انجام بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اگر کسی مجبوری و ناداری کی وجہ سے وقت پر وعدہ پورا نہیں کر پا رہا ہے تو اس کو صاحب معاملہ سے اس کی وضاحت کرنی چاہیے اور صاحب معاملہ کو ایسے شخص کے ساتھ نرمی برتنی چاہیے اور مہلت دینی چاہیے۔ واضح رہے کہ ان سب کاموں میں نیت کا بڑا دخل ہوتا ہے، اگر واقعی آدمی ادائیگی کی نیت رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی سبیل پیدا کرتا ہے، اور اگر پہلے سے آدمی کی نیت خراب ہو اور ارادے میں فتور ہو تو انجام بھی ویسا ہی ہوتا ہے، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جو شخص لوگوں کا مال اس نیت سے لیتا ہے کہ اسے پھر ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس مال کی ادائیگی کراتا ہے، اور جو شخص اس نیت سے لیتا ہے کہ اسے برباد