کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 223
جعلسازی سے پرہیز کرتا ہے اور گراہکوں کا اعتماد حاصل کرتاہے۔ ۳- سامان کا عیب چھپانا: یہ بھی درحقیقت ایک طرح کا دھوکہ اور فریب ہی ہے،اس میں دوکاندار اپنے سامان کی کسی خرابی یا عیب کو گراہک سے ظاہر کیے بغیر اس کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے ، یعنی عیب دار سامان کو صحیح سالم(Fresh)کی جگہ بیچ دیتا ہے، ظاہر بات ہے کہ خریدار کو جب اس خرابی کا پتہ چلے گا تو دوکاندار سے اس کی تو تو میں میں ہو گی ،اور لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آسکتی ہے ،اور ان سب چیزوں سے معاشرہ میں انتشار و افتراق کو جنم لینے کا موقع ملے گا۔اس کے ساتھ ہی ایسے تاجر کے یہاں سے برکت اٹھ جا تی ہے ، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیچنے اورخریدنے والے دونوں اگر سچ بولیں گے اور اصل حال بیان کردیں گے تو ان کے لین دین میں برکت ہوگی، اور اگر جھوٹ بولیں گے اور(اصلیت کو)چھپائیں گے تو اس سودے کی برکت مٹا دی جائے گی۔‘‘ (بخاری ، مسلم) ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو کوئی سامان بیچے اور اس میں عیب ہو مگر اسے باخبر نہ کرے‘‘ (احمد، ابن ماجہ، حاکم، ملاحظہ ہو:صحیح الجامع) بہر حال جس کاروبار سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور برکت اٹھ جائے وہ کاروبار کب تک اپنے بل بوتے پر کھڑا رہے گا، اسی لیے ایسے انجام سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ۴- بد عہدی اور وعدہ خلافی: وعدہ وفائی اور عہدو پیمان پر قائم رہنا ہر جگہ اور ہر کام میں اس کی اہمیت ہے، آدمی جس سے بھی جس چیز کا وعدہ کرے اسے پورا کرے، جو معاہدہ کرے اس کو نبھائے، اگر اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اپنے قول و قرار اور وعدہ وموقف پر قائم نہیں رہتا تو لوگوں کی نظروں سے گر جاتا اور بے اعتبار مانا جاتا ہے، کاروبار اور خرید وفروخت میں بھی اس کی وہی