کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 222
ہوگا‘‘(صحیح مسلم) اسی طرح اس زمانہ میں کچھ لوگ ایسا کرتے تھے کہ دودھ دینے والے جانور کو بیچنا ہوتا تو ایک دو روز اس کا دودھ نہ دوہتے تاکہ اس کا تھن بڑا نظر آئے اور خریدنے والا یہ سمجھے کہ اس جانور کا تھن اتنا ہی بڑا ہے اور زیادہ دودھ دینا اس کی عادت ہے، مگر جب وہ اسے خرید کر اپنے گھر لے جاتا اور ایک دو وقت کا دودھ نکال لیتا تو اس کا تھن اپنی اصلی حالت پر واپس آجاتا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔ بعض دوکاندار ایسا بھی کرتے ہیں کہ کسی آدمی سے ساز باز کیے رہتے ہیں کہ جب کوئی گر اہک سامان خریدنے آتا ہے اور وہ کسی سامان کا دام لگاتا ہے تو وہ آدمی آگے آکر اس سے زیادہ اس سامان کا دام لگانے لگتا ہے حالانکہ اس کا مقصد خریدنا نہیں ہوتا بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ وہ شخص دھوکے میں آکر زیادہ قیمت میں وہ سامان خرید لے، حدیثوں میں اس کی بھی ممانعت آئی ہے۔بخاری و مسلم وغیرہ میں اس تعلق سے روایتیں موجود ہیں۔ آج دھوکہ، فریب اور جعلسازی کی بہت ساری شکلیں رائج ہیں، ان میں سے کچھ کو لوگ جانتے ہیں بیشتر کو نہیں جانتے اور فریب کا شکار ہو جاتے ہیں، اس قسم کی مثالوں میں سے یہ ہے کہ نمونہ میں کچھ اور سامان دکھلایا جائے اور ڈیلیوری کے وقت اوردے دیا جائے، پرانے سامان کو رنگ وروغن کے بعد نیا سامان بتلا کر بیچا جائے، کپڑے کا تانا بانا(60×60)کا ہو مگر اس پر(100×100)کی مہر یا لیبل لگا کر بیچا جائے، سامان کا ڈبہ یا پیکٹ خوب بڑا بنایا جائے مگر اس میں سامان کم ہو، باقی جگہ خالی ہو یا ردی کاغذوغیرہ سے پر کی گئی ہو۔الغرض آپ نگاہ دوڑائیں تو چار سو بیسی کی درجنوں نہیں سیکڑوں صورتیں نظر آئیں گی، بلکہ یوں کہا جائے کہ اب تجارت اور کاروبار اسی طرح کی چالبازی اور جعلسازی ہی کا دوسرا نام بن گیا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔اسلام ان تمام شکلوں کو ممنوع قرار دیتا ہے اور ان سے سختی سے روکتا ہے۔ایک مسلمان تاجر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہر طرح کی