کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 221
طریقوں سے اس جرم کا ارتکاب کرتی ہیں، یہ فعل غیر اسلامی اور غیر انسانی ہے، اور نہ صرف کاروبار کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ اگر اکثریت اس کی مرتکب ہوتی ہے تو قادر مطلق کے عمومی عذاب سے بھی دوچار ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہماری شریعت نہ صرف ناپ تول کی کمی سے منع کرتی اور پورا پورا دینے کا حکم دیتی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اپنی جانب سے کچھ بڑھا کر دینے کو مستحسن قرار دیتی ہے ،چنانچہ اس کی ترغیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے کی ،ایک حدیث میں بعض صحابہ کرام کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی کپڑاخریدا ،قیمت میں کوئی چیز تول کر دینی تھی آپ نے تولنے والے سے کہا کہ وزن کرو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔(مسند احمد ،سنن اربعہ وغیر ہ بسند صحیح) ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ رحم کرے اس شخص پر جو خریدتے وقت بھی نرمی سے کام لیتا ہے ،بیچتے وقت بھی نرمی سے کام لیتا ہے اور تقاضا کرتے وقت بھی۔‘‘(بخاری) ۲- دھوکہ دھڑی: وہ تمام شکلیں جن میں خریدار کو سامان دیکھنے میں بھلا اور بہتر معلوم ہو مگر اس کے اندر کسی طرح کا نقص یا خرابی ہو جو اس کے علم میں نہ لائی گئی ہو،سب دھوکہ وفریب والی دوکان داری مانی جاتی ہے ،اور ہماری شریعت نے اس سے سختی سے منع کیا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلہ بیچنے والے کے پاس سے گزر ہوا ،وہ غلے کا ڈھیر لگائے ہوئے تھا ،آپ نے اس ڈھیر میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو آپ کی انگلیوں میں نمی محسوس ہوئی ،آپ نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟دوکاندار نے کہا کہ اے اللہ کے رسول!بارش ہوئی تھی ،آپ نے فرمایا کہ اس(بھیگے ہوئے غلہ)کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں ،پھر آپ نے فرمایا: ’’جو ہم(مسلمانوں)کے ساتھ دھوکہ دھڑی کرے گا وہ ہم میں سے نہیں