کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 190
مالیاتی اعتبار سے اس نظام کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس نظام کا مطلوب یہ ہوتا ہے کہ گھر کا ہر کمانے والا اپنی کمائی گھر کے نگراں یا ذمہ دار کے حوالے کردیا کرے، انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی کمائی اپنے فائدے کے لیے استعمال دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نظام پر صد فی صد عمل اس کے لیے بے حد دشوار معلوم ہوتا ہے، چنانچہ وہ کمائی کا ایک حصہ خاندان کے سربراہ کے حوالہ کرتا ہے تو ایک حصہ مختلف چور دروازوں کو استعمال کرکے الگ پس انداز کرتا ہے، چونکہ کمائی میں سب برابر نہیں ہوتے اس لیے ’’دیر یا سویر اس غیر فطری نظام کا شیرازہ جب بکھرتا ہے تو جوئے کی بازی کے مانند کسی کی مٹھی بھری ہوتی ہے اور کسی کی بالکل خالی، اس نظام کا جو جتنا مخلص اور اپنے اہل وعیال کے مفادات سے جتنا ہی لاپرواہ ہوگا انجام کار حسرت وندامت بھی اس کے حصے میں اس کے بقدر وافر آئے گی۔‘‘ مشترک خاندان کے تمام افراد کے درمیان بظاہر یکساں سلوک ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعوری یا لاشعوری طور پر زیادہ کمانے والے کو کم کمانے والے کے مقابل گھر میں زیادہ عزت وتوقیر حاصل ہوتی ہے اور یہ عزت وتوقیر اس کے بیوی بچوں تک کو مشتمل ہوتی ہے، اسی طرح مشترک خاندان کی ناگزیر باہمی آویزش اور کشاکش کے نتیجے میں، یا موہوم معاشی مسائل کا ہوّا کھڑا کرکے بہت سے نونہالوں کو ناخواندہ اور جاہل چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہیں قبل از وقت کمائی کی مشین کا پرزہ بنا دیا جاتا ہے۔دوسری طرف یہ نظام بہت سے افراد کی فرضی کفالت کا ذمہ لے کر انہیں جدوجہد کے میدان میں اترنے سے باز رکھتا ہے، اس طرح گھر کے لوگوں میں سے بہت سوں کو یہ نظام کمزور کردیتا اور انہیں ناکارہ اور نااہل بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مشترک خاندان میں چونکہ کسی شخص کی الگ مالی حیثیت کا تعین نہیں ہوتا اس لیے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وسائل کی بربادی ہوتی ہے اور گھر کے سامانوں کے استعمال میں حددرجہ بے احتیاطی برتی جاتی ہے، دس بیس سال تک چلنے والے سامان چند سالوں میں