کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 189
ضرورت کے لیے بلائے تو اس کو اپنا جلتا توا چھوڑ کر آنا چاہیے، کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑ جائے اور اس سے آدمی کے جذبات انگڑائی لینے لگیں تو اسے اپنی شریک حیات کے پاس آکر فوراً اپنی ضرورت پوری کرلینی چاہیے، شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت کو نفلی روزے سے منع کیا گیا ہے، یہ اور اس قسم کے دیگر احکام وہدایات پر عمل مشترک خاندان کے ازدہام میں بے حد مشکل ہے، مکان کی علحدہ یونٹ ہی اس کا حل ہے۔
نماز باجماعت کی دین میں کیا اہمیت ہے، ان کو ان کے متعین اوقات میں ادا کرنے کی کتنی تاکید ہے، مگر مشترک خاندان کے ازدہام میں مقررہ اوقات میں زوجین کا غسل جنابت کرکے نماز ادا کرنا ایک چیلنج بنا رہتا ہے، اگر شوہر اپنی قوت ارادی سے اس مہم کو سر کر بھی لے جائے تو بیوی کا فطری جذبۂ حیا بہر حال اس راہ میں مانع بنا رہتا ہے، دیور، دیورانی، جیٹھانی ان کے چھوٹے بڑے بچے، ساس اور نندوں کے ازدہام میں سہولت کے باوجود اس کے لیے وقت بے وقت غسل کر لینا مشکل ہے۔مسلمان معاشرے کے بے شمار افراد ہیں جن کی نمازیں محض مشترکہ خاندان کے نامطلوب نظام کے نتیجے میں نقص اور خلل کا شکار ہیں۔
معاشرتی اعتبار سے دیکھا جائے تو مشترک خاندان میں ہر فرد اپنی پسند اور اپنی ترجیحات سے دست بردار ہوکر کھانے پینے کے پورے نظام کا بھی پابند ہوتا ہے، اس سے ہٹ کر اپنی کسی پسند پر عمل درآمد اس نظام کے احترام کے منافی ہے، اسی طرح خانگی ذمہ داریوں میں بیوی کے ساتھ شوہر کی شرکت اور اس کی مدد وتعاون میں بھی یہ نظام رکاوٹ بنتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جو معمولات گھر سے متعلق بیان کیے گئے ہیں ان میں گھر کے کام کاج میں لگے رہنا، بکری دوہنا، اپنے کپڑے سلنا، اپنے جوتے گانٹھنا وغیرہ وغیرہ کا تذکرہ ہے، اسلامی معاشرت کے یہ مطلوبہ تقاضے مختصر خاندان اور گھر کی علحدہ یونٹ میں ہی بآسانی پورے کیے جاسکتے ہیں۔