کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 173
تحریمہ فوت نہیں ہوئی ہے، اور پچاس سال سے میں نے نماز میں کسی آدمی کے سر کی گدی نہیں دیکھی ہے۔
آپ ہی کا یہ بھی فرمانا تھا کہ تیس سال سے میرا معمول ہے کہ مؤذن کی اذان سے پہلے میں مسجد میں موجود رہتا ہوں۔
(حلیۃ الاولیاء:۲؍۱۶۲-۱۶۳، وفیات الاعیان:۲؍۳۷۵)
وکیع بن جراح فرماتے ہیں کہ حضرت اعمش کی ستر سال تک تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی۔(السیر:۶؍۲۲۸)
ابن سماعہ کہتے ہیں کہ چالیس سال تک میری تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی، سوائے اس دن کے جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا۔(ایضا:۱۰؍۶۴۶)
چونکہ حدیث میں یہ صراحت آئی ہے کہ چالیس دن تک جو شخص نماز باجماعت تکبیر تحریمہ کے ساتھ اللہ واسطے ادا کرے گا تو جہنم سے اور نفاق سے اس کی براء ت لکھ د ی جائے گی۔(ترمذی، بسند حسن)اس لیے ہمارے اسلاف تکبیر تحریمہ اور نماز باجماعت کے لیے اس قدر اہتمام فرماتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ نماز کی عظمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی طرح کی سستی کے بغیر اذان سنتے ہی اول وقت میں مسجد کا رخ کیا جائے اور پورے اہتمام کے ساتھ مکمل نماز ادا کی جائے، رہا یہ کہ اس سے غفلت برتنا، دیر سویر مسجد پہنچنا کہ کبھی ایک دو رکعت اور کبھی پوری جماعت ہی چھوٹ جائے ، ایسی عادت ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔
حضرت ابراہیم تیمی رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ تکبیر تحریمہ کے تعلق سے سستی برت رہا ہے تو ایسے شخص سے اپنا ہاتھ دھل لو(یعنی ایسے شخص کے اندر کوئی خیر نہیں)(حلیۃ الاولیاء:۴؍۲۱۵،۵؍۶۲،۶۵، صفۃ الصفوۃ:۳؍۸۸)
یہ حضرات نماز باجماعت کے تعلق سے ا س قدر حساس رہتے تھے کہ اگر کبھی -یعنی زندگی میں ایک دو بار بھی- جماعت چھوٹ گئی تو انہیں بڑا دکھ ہوتا اور اس کی تلافی کے لیے وہ مختلف طریقے اپناتے۔